متنازعہ بھارتی ریاست جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو اچانک تحلیل کر دیا گیا ہے۔ ریاستی گورنر کے خیال میں بے چینی کی شکار اس ریاست کو ایک مضبوط انتظامیہ کی ضرورت ہے۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال نے بدھ کی رات دیر گئے اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ پال نے کہا کہ اب ریاست میں مناسب وقت پر انتخابات کرائے جائیں گے تاکہ واضح طور پر کوئی حکومت تشکیل پا سکے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے جون میں ریاست میں قائم مخلوط حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ریاستی انتظامات براہ راست وفاق ہی چلا رہی تھی۔
بی جے پی کی مخالف جماعتوں نے گورنر پال کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا ہے تا کہ دیگر جماعتیں مل کر ایک مضبوط ریاستی حکومت تشکیل نہ دے پائیں۔ مختلف جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ریاستی پارلیمان میں ان کی اکثریت ہے اور انہیں حکومت سازی کا حق حاصل ہے۔
تاہم گورنر پال اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے بقول ارکین کی طرف داریاں حاصل کرنے کے لیے خطیر رقوم خرچ کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں اور رقم کا لین دین بھی ہوا ہے، جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اتحاد مستحکم حکومت نہیں بنا سکے گا۔
مسئلہ کشمير پر برلن میں دستاویزی فلم کی نمائش
01:51
ان کے بقول’’جموں و کشمیر کو دہشت گردی کی حمایت کرنی والی جماعتوں کے بجائے ایک ایسی مستحکم انتظامیہ کی ضرورت ہے، جو دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘
ستیہ پال وہ پہلی سیاسی شخصیت ہیں، جنہیں تناؤ میں گھری اس ریاست کا گورنر بنایا گیا ہے۔ روایتی طور پر گورنر کی ذمہ داری کسی غیر سیاسی شخصیت کے سپرد کی جاتی رہی ہے۔
جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے جبکہ مسلح عسکریت پسندی کی وجہ سے ہزاروں عام شہری بھی مارے جا چکے ہیں۔
کشمیر میں خاردار تاریں، چیک پوسٹیں اور ووٹنگ
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر گزشتہ دو دہائیوں سے تنازعے میں جکڑا ہوا ہے۔ حالانکہ ان دنوں بھارت بھر میں انتخابات کا چرچا ہے، لیکن کشمیر کے عوام تیس اپریل کو ووٹنگ کے دن کچھ خاص پرجوش دکھائی نہ دیے۔
تصویر: Bijoyeta Das
سخت سکیورٹی
بھارت میں پولنگ کے ساتویں مرحلے میں کشمیر میں بھی ووٹنگ ہوئی۔ اس موقع پر وہاں سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ پولیس نے پولنگ کے عمل میں خلل سے بچنے کے لیے چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ بہت سے لوگوں نے مسلمان علیحدگی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ کے مطالبات اور پرتشدد کارروائیوں کے خدشات کے باعث پولنگ اسٹیشنوں کا رُخ نہ کیا۔ اس باعث ٹرن آؤٹ صرف 25.6 فیصد رہا۔
تصویر: Bijoyeta Das
فیصلہ اپنا اپنا
اس کے باوجود کچھ کشمیریوں نے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تصویر سری نگر کی ہے جہاں ایک بزرگ شہری ووٹ ڈالنے کے بعد اپنی انگلی پر لگا سیاہی کا نشان دکھا رہے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
جوش و جذبے سے عاری
اپوزیشن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے حامی ووٹ ڈالنے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن سری نگر میں پولنگ کے موقع پر مجموعی طور پر بھارت کے دیگر علاقوں جیسا جوش و جذبہ دیکھنے میں نہ آیا۔
تصویر: Bijoyeta Das
ویران گلیاں
ووٹنگ کے دن سری نگر کی گلیاں ویران پڑی تھیں۔ تیس اپریل کو بیشتر دکانیں بند رہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں پر نہیں تھی۔ ریاستی دارالحکومت میں کرفیو کا سا سماں تھا۔
تصویر: Bijoyeta Das
ووٹر کم، فوجی زیادہ
کشمیر کے دیگر شہروں کے مقابلے میں سری نگر میں ٹرن آؤٹ کافی کم رہا۔ اس پولنگ اسٹیشن پر سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد ووٹروں سے زیادہ تھی۔
تصویر: Bijoyeta Das
پہلے استصوابِ رائے
متعدد کشمیری علیحدگی پسند گروپوں نے پولنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ سری نگر میں متعدد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے لیے استصوابِ رائے چاہتے ہیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ بھارت کے خلاف نعرے بھی دکھائی دیے۔
تصویر: Bijoyeta Das
بے نیازی
سری نگر میں بچوں نے ہڑتال کے باعث اسکول بند ہونے کا خوب مزا لیا۔ وہ اپنے شہر اور ریاست میں پولنگ سے بے نیاز رہے اور انہوں نے عام پر طور پر مصروف رہنے والی سڑکوں پر کرکٹ کھیلی۔