1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے احتجاج

25 اپریل 2013

بھارتی عوام پھر سے بچوں اور خواتین کے تحفظ میں ناکامی پر حکام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ زیادتی کا شکار ہونے والی ایک پانچ سالہ بچی کے کیس کے سلسلے میں بھی پولیس نے والدین کو دو ہزار روپے دے کر خاموش کروانے کی کوشش کی۔

تصویر: Reuters

دارالحکومت نئی دہلی کو تو اب ’آبروریزی کے دارالخلافے‘ کا نام دیا جانے لگا ہے۔ بھارت میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور اُس کے بعد پولیس کے رویے نے دسمبر 2012ء کے اُس ہولناک واقعے کی یادیں تازہ کر دی ہیں، جب ایک نوجوان طالبہ کو نئی دہلی میں پولیس چوکیوں کے پاس سے گزرتی بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بعد ازاں یہ طالبہ سنگاپور میں اپنے اندرونی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھی۔ تب سے عجلت میں سخت سزائیں متعارف کروائی گئی ہیں تاہم اس طرح کے پَے در پَے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین اور بچے پہلے کی طرح اب بھی غیر محفوظ ہیں۔

جرمن شہر میونخ کی لُڈوِک مُلر یونیورسٹی سے وابستہ ہندوستانی علوم کی خاتون ماہر ریناٹے سید کے خیال میں معاشرے میں خواتین کا کردار ہمیشہ ثانوی نوعیت کا رہا ہے:’’قدیم ہندوستانی روایات کو دیکھا جائے تو معاشرے میں خواتین کو ہمیشہ نیچا مقام دیا جاتا رہا ہے۔ انہیں ہمیشہ مرد کی ملکیت سمجھا جاتا رہا ہے۔ مرد کو دانشمندی کی جبکہ خاتون کو بے بصیرتی کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اسی لیے یہ تصور رہا ہے کہ اُسے ہمیشہ مرد کے حکم کے تابع رہنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج بھی خواتین کو اپنی الگ شناخت ابھارنے نہیں دی جاتی بلکہ اُسے ہمیشہ کسی کی بیٹی یا کسی کی بیوی کے طور پر ہی جانا جاتا ہے۔‘‘

ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے خلاف بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں احتجاجتصویر: Reuters

ریناٹے سید نے ’بیٹی بدقسمتی کی علامت‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس میں اُنہوں نے جدید بھارت میں خواتین کے ساتھ ہونے و الے امتیازی سلوک پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔

بھارت نے گزشتہ کچھ عشروں کے دوران ہوش ربا ترقی کی ہے تاہم ملک کی دو تہائی آبادی آج بھی چمکتے دمکتے بڑے شہروں سے دور دیہات میں بستی ہے اور اُس کا گزارہ زراعت پر ہے۔ نئی دہلی کی حقوقِ نسواں کی علمبردار اُروَشی بھُٹالیا کے خیال میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق معاشرے میں بڑھتی ہوئی گھٹن کا باعث بن رہا ہے۔ تاہم وہ معاشرے میں خواتین کے خلاف تشدد کے لیے سرکاری مشینری کو بھی قصور وار ٹھہراتی ہیں:وہ کہتی ہیں کہ زیادتی کے واقعات میں پولیس اکثر قصور واروں کو تحفظ دیتی ہے، خاص طور پر اُس صورت میں، جب اُن کا تعلق خوشحال اور با اثر طبقات سے ہو۔ الٹا خواتین ہی سے زیادتی کو ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ بھارت کے عدالتی نظام پر مقدمات کے بوجھ کے باعث مقدمہ شروع ہونے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور اس میں پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے اور یہ سارا عمل اعصاب شکن بھی ہوتا ہے۔

بھوبنیشور، بھارت میں بچوں اور خواتین کے خلاف زیادتیوں پر احتجاج کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/AP Photo

بھارتی معاشرے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی اور بھی وجوہات ہیں۔ وہاں دلہن کو اپنے ساتھ بھاری جہیز لانے کی ہولناک روایت بھی ہے، جو سخت قوانین کے باوجود جاری و ساری ہے۔ ایسے میں خواتین کو ایک بڑا مالی بوجھ سمجھا جاتا ہے چنانچہ بھارت کے کئی علاقوں، خاص طور پر شمالی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ میں یہ پتہ چلنے کی صورت میں کہ ہونے والا بچہ ایک لڑکی ہو گی، زیادہ سے زیادہ کیسز میں اسقاط حمل کروا دیا جاتا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسا کرنے پر بھی سزا متعارف کروائی جا چکی ہے تاہم ان ریاستوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد کا تناسب یہی بتاتا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر لڑکیوں کو اس دنیا میں نہیں آنے دیا جا رہا۔

خود خواتین اپنی جنس کے ساتھ امتیازی سلوک برتتی ہیں اور لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو زیادہ عرصے تک اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ چنانچہ حکومتِ بھارت نے سرکاری اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے تعلیم مفت کر دی ہے۔ اس کا مثبت اثر دیکھنے میں آیا ہے۔ جہاں 2001ء میں خواتین میں خواندگی کی شرح محض 48 فیصد تھی، وہاں 2011ء میں بڑھ کر 65.4 ہو گئی تاہم مردوں میں یہ شرح ابھی بھی کہیں زیادہ ہے۔

P.Esselborn/aa/ij

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں