امرت پال سنگھ کو گرفتار کیا گیا یا انہوں نے خود گرفتاری دی
صلاح الدین زین
24 اپریل 2023
بھارتی ریاست پنجاب کے علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے بعد ریاست آسام بھیج دیا گیا۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ انہوں نے خود کو پولیس حوالے کیا، جبکہ حکام کا دعوی ہے کہ امرت پال کو محاصرہ کر کے گرفتار کیا گیا۔
اشتہار
بھارتی ریاست پنجاب کی پولیس نے اتوار کی صبح اعلان کیا کہ ریاست کے علیحدگی پسند خالصتانی رہنما امرت پال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس گزشتہ ایک ماہ سے بھی زیادہ وقت سے ان کی تلاش میں تھی اور بالآخر اب وہ پولیس کی حراست میں ہیں۔
تاہم انہیں ریاست پنجاب میں رکھنے کے بجائے، دور دراز شمال مشرقی ریاست آسام کی ایک جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے ان کے دیگر ساتھیوں کو بھی گرفتار کر کے آسام منتقل کیا گیا تھا۔ بھارتی میڈيا کی اطلاعات کے مطابق ملک مخالف سرگرمیوں کے متعدد الزامات کے تحت ان پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا دعوی ہے کہ ضلع موگا میں ان کے گاؤں کا مکمل طور پر محاصرہ کر لیا گیا تھا، جس کے بعد امرت پال سنگھ کر گرفتار کیا گیا۔ پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل سکھ چین سنگھ گل نے کہا کہ امرت پال کو مصدقہ اطلاعات کے ذریعے پتہ لگا کر ان کو گھیرے میں لے لیا گیا۔
انہوں نے کہا، ’’جب امرت پال کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا، تو وہ گردوارے سے باہر آیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پولیس تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے گردوارے میں داخل نہیں ہوئی۔
تاہم اس حوالے سے جو ویڈیوز گردش میں ہیں اس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار کی صبح امرت پال سنگھ پہلے گاؤں کے گردوارے کے اندر داخل ہوتے ہیں اور پھر وہاں مختصر سی تقریر کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیدل چل کر پولیس کے پاس آتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو حوالے کرتے ہیں۔
امرت پال سنگھ کے قریبی لوگوں نے بھارتی میڈيا سے بات چیت میں کہا کہ سکھ رہنما ہفتے کی شام روڈے گاؤں پہنچے تھے اور صبح پولیس کو اپنی خود سپردگی کی اطلاع دی تھی۔
مقتول عسکریت پسند مبلغ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کے بھتیجے جسبیر سنگھ روڈے، جو اکال تخت کے سابق جتھیدار بھی ہیں، نے بتایا کہ "مجھے پولیس سے معلوم ہوا تھا کہ امرت پال خود سپردگی کرنے والے ہیں۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیا، تو میں ان کے ساتھ تھا۔ یہ خبریں غلط ہیں کہ امرت پال کو گرفتار کیا گیا، یا اسے خود سپردگی پر مجبور کیا گیا۔ اگر پولیس کو معلوم ہوتا کہ وہ یہاں ہیں، تو وہ انہیں گوردوارے میں ایک اجتماع سے خطاب کی اجازت ہرگز نہ دیتی۔"
گاؤں کے ایک اور شخص سرجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ گردوارے میں ان کے داخل ہونے کے تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد پولیس وہاں پہنچی۔ جب امرت پال باہر آئے، تو "سادی وردی والے پولیس حکام انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔"
سرنڈر کرنے سے قبل اپنے خطاب میں امرت پال سنگھ نے کہا، "میں نے اس جگہ اپنی خود سپردگی کا فیصلہ کیا، جو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کا آبائی گاؤں ہے اور جہاں میری بھی دستار بندی کی گئی تھی۔ یہ اختتام نہیں بلکہ ایک نئی شروعات ہے۔ میں جلد ہی واپس آؤں گا اور ہمارے ذریعے شروع کیا گیا امرت سنچار اور خالصہ وہیر بھی دوبارہ شروع کیا جائے گا۔"
اشتہار
امرت پال سنگھ سے تفتیش
امرت پال سنگھ کو ریاست آسام کی ہائی سکیورٹی ڈبرو گڑھ جیل میں ان کے معاونین سے الگ تھلگ ایک تنہا سیل میں رکھا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق رو اور آئی بی جیسی بھارت کی مرکزی انٹیلیجنس ایجنسیاں ان سے پوچھ گچھ کی تیاری کر رہی ہیں۔
قانونی جنگ لڑیں گے، امرت پال کی والدہ
اس دوران امرت پال سنگھ کی والدہ بلوندر کور نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں معلوم ہوا ہے ان کے بیٹے نے خود کو پولیس کے سپرد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، "مجھے فخر محسوس ہوا کہ اس نے ایک جنگجو کی طرح سرنڈر کیا، ہم قانونی جنگ لڑیں گے اور جلد از جلد اس سے ملیں گے۔"
بھاری ریاست پنجاب تقریباً 58 فیصد سکھ اور 39 فیصد ہندو آبادی پر مشتمل ہے۔ اس ریاست کو 1980ء اور 1990ءکی دہائی کے اوائل میں خالصتان کے حامیوں کی ایک پرتشدد علیحدگی پسند تحریک نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔
بھارت نے اکثر غیر ملکی حکومتوں سے بھارتی تارکین وطن میں سخت گیر سکھوں کی سرگرمیوں پر شکایت کی ہے، جو اس کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مالی دباؤ کے ساتھ شورش کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔