بھارت: 'خالصتان کے حوالے سے انتباہی مکتوب جعلی ہے'
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
14 دسمبر 2021
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ خالصتانی سرگرمیوں سے متعلق جو تنبیہی مکتوب گردش کر رہا ہے وہ اس نے نہیں جاری کیا۔ بھارتی حکام کو شبہ ہے کہ اس جعلی خط کی گردش میں پاکستانی ایجنسیوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
اشتہار
بھارت نے 14 دسمبر منگل کے روز کہا کہ خالصتان اور مبینہ سکھ شدت پسندوں کی سرگرمیوں سے متعلق وزارت خارجہ کی جانب سے جو ایک تنبیہی مکتوب وائرل ہو رہا ہے وہ اس نے کبھی نہیں جاری کیا اور یہ اس کے نام پر ایک جعلی خط ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ سے منسوب ایک مکتوب گزشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں مبینہ طور پر سکھ انتہا پسندوں کی طرف سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی بات کی گئی تھی۔ حکام کے مطابق یہ خط آٹھ نومبر کو جاری کیا گیا تھا اور کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیا جا رہا ہے۔
بھارتی ریاست پنجاب میں سکھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے اور اس سے وابستہ کئی تنظیمیں سکھوں کے لیے بھارت سے علیحدہ ایک الگ ریاست 'خالصتان' کے لیے مہم چلاتی رہی ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اس حوالے سے کافی الرٹ ہیں اور حکومت وقتاً فوقتاً اس حوالے سے بیان بھی دیتی ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ مذکرہ خط اس نے جاری نہیں کیا۔
خط میں کیا ہے؟
اس خط میں بنیاد پرست سکھوں کی طرف سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تفصیل سے بات چیت کی گئی ہے۔ اس میں مبینہ سکھ انتہا پسندوں کی طرف اٹھائے جانے والے اقدام کے بارے متنبہ کرتے ہوئے ان سے کیسے نمٹا جائے ان اقدامات کے حوالے سے تفصیل شامل ہے۔
گزشتہ ماہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ سکھوں کی ممنوعہ تنظیم 'سکھ فار جسٹس' سے وابستہ لوگ نئی دہلی میں پارلیمان کا محاصرہ کر کے اس پر خالصتانی پرچم لہرا سکتے ہیں۔
خفیہ ایجنسیوں کے حکام نے اس کے لیے الرٹ جاری کرتے ہوئے دہلی پولیس اور دیگر محکموں کے کو چوکس رہنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سلسلے میں پارلیمان کے آس پاس کی سکیورٹی کے سخت انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ننکانہ صاحب میں بابا گورو نانک کا جنم دن کیسے منایا گیا
03:39
بھارتی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ الرٹ اس وقت جاری کیا گيا تھا جب سکھ فار جسٹس پارٹی کے ایک رہنما گرپتونت سنگھ پنّو نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں سرمائی اجلاس کے دوران کسانوں سے پارلیمان کا محاصرہ کرنے اور اس پر خالصتانی پرچم لہرانے کی اپیل کی تھی۔ تاہم اس نے اس سلسلے میں کوئی مکتوب جاری نہیں کیا۔
پاکستان پر شک و شبہ
معروف انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے وزارت خارجہ کے حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اس خط میں پاکستان کے ملوث ہونے پر شک و شبے کا اظہار کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق بھارت میں کسانوں کے احتجاج کے دوران پاکستان خالصتانی عناصر کی مدد سے اس طرح کی سرگرمیوں کو ہوا دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
بھارت ماضی میں بھی پاکستان پر خالصتانی تحریک کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتا رہا اور اسی بنیاد پر حکام اس میں پاکستان کا ہاتھ ہونے کا شبہہ ظاہر کر رہے ہیں۔ تاہم یہ امر اب بھی ایک معمّہ ہے کہ جب اس طرح کا خط آٹھ نومبر سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تو بھارتی حکام نے اس کی تردید اتنی تاخیر سے کیوں کی؟
اشتہار
خالصتانی مہم
بھارتی صوبے پنجاب کو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست خالصتان بنانے کی مہم کافی پرانی ہے اور اس سے وابستہ بیشتر رہنما امریکا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہ کر اپنی مہم چلاتے ہیں۔ سکھ فار جسٹس پارٹی کے ایک رہنما گرپتونت سنگھ پنّو بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک ویڈیو کال میں اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بھارتی پارلیمان پر خالصتانی پرچم لہراتا ہے تو اسے سوا لاکھ امریکی ڈالر بطور انعام دیا جائے گا۔ گزشتہ اکتوبر میں اسی تنظیم نے ایک آن لائن ریفرنڈم کا اعلان کیا تھا، جس میں اس بات کا فیصلہ کیا جانا تھا کہ پنجاب سے ایک الگ ریاست قائم کی جائے یا نہیں۔
سکھ فار جسٹس تنظیم نے اٹھارہ برس سے زیدہ عمر کے تمام سکھوں سے اس ریفرنڈم میں ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینے کی اپیل کی تھی۔
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔