خلیجی ممالک بھارت کے لیے اتنے اہم کیوں ہیں؟
8 جون 2022تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم مودی اس وقت ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف وہ بھارت کے اتحادی عرب اور مسلم ممالک کو خوش رکھنا چاہتے ہیں دوسری طرف اپنے اصل ووٹر ہندو قوم پرستوں کو بھی ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ پیغمبر اسلام کی اہانت کا تنازع ایسے وقت شدت اختیار کرتا جارہا ہے جب بھارت خلیجی ملکوں کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مستحکم کررہا ہے۔
حالانکہ ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور مودی حکومت دونوں معاملے کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ تاہم عام تاثر یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ آٹھ برسوں میں خلیج اور دیگر مسلم ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے جتنی محنت کی تھی اس پر بڑی حد تک پانی پھر گیا ہے۔
خلیجی اور اسلامی مملک بھارت کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ بھارت 65 فیصد خام تیل مشرق وسطٰی کے ملکوں سے درآمد کرتا ہے اور وہاں کام کرنے والے لاکھوں بھارتی ہر سال اربوں ڈالرکا زرمبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں۔
وزیر اعظم مودی خود بھی اس حقیقت کا اعتراف کرچکے ہیں۔ سن 2019 میں سعودی عرب کے دورے کے دوران 'عرب نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا،''تقریباً 26 لاکھ بھارتیوں نے سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر بنایا ہے۔ وہ یہاں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس پر بھارت کو فخر ہے۔ ان کی سخت محنت اور لگن سے سعودی عرب میں بھارت کا وقار بڑھا ہے۔‘‘ مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ خلیجی ملکوں میں بھارت کے 80 لاکھ افراد رہتے ہیں۔ یہ لاکھوں لوگ یہاں سے اربوں ڈالر زرمبادلہ بھارت بھیجتے ہیں۔
مسلم ملکوں کی ناراضگی سے بھارت پر کیا اثر پڑے گا؟
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق تقریباً ایک کروڑ 34 لاکھ ''نان ریزیڈنٹ انڈین‘‘ این آر آئی، بھارتی باشندے بیرونی ملکوں میں رہتے ہیں اور اگر بھارتی نژاد افراد کی تعداد بھی ان میں شامل کرلی جائے تو یہ لگ بھگ تین کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے۔ غیرمقیم بھارتیوں (این آر آئی) کی سب سے بڑی اور مجموعی تعداد کا تقریباً نصف خلیجی ملکوں میں ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ تعداد 34 لاکھ، سعودی عرب میں 26 لاکھ اور کویت میں دس لاکھ سے زیادہ ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر خلیجی ملکوں میں بھارت کے خلاف ناراضگی بڑھتی ہے اور وہ بھارتیوں کو اپنے یہاں ملازمت نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو تقریباً ڈیڑھ کروڑ بھارتیوں کو وطن واپس لوٹنا پڑے گا۔ جبکہ بھارت میں سرکاری ادارے سی ایم آئی ای کے مطابق پہلے سے ہی پانچ کروڑ 30لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں۔
خلیجی ممالک زرمبادلہ، تیل اور تجارت کا اہم ذریعہ
ورلڈ بینک کے مطابق گزشتہ برس بیرون ملکوں میں کام کرنے والے بھارتیوں نے جتنا زرمبادلہ بھیجا اس میں خلیجی ملکوں میں کام کرنے والوں کا تعاون 45 فیصد تھا۔ اسلامی ملکوں میں رہنے والے بھارتیوں نے تین لاکھ کروڑ روپے وطن بھیجے۔ یہ رقم بھارت کی دو بڑی ریاستوں اترپردیش اور بہار کو ٹیکس سے ہونے وصول ہونے والی مجموعی آمدنی 1.56 لاکھ کروڑ روپے سے تقریباً دو گنا ہے۔
بھارت کے معروف تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے مطابق بھارت اپنی تیل کی ضروریات کا 84 فیصد درآمد کرتا ہے۔ ان میں سے تقریباً 60 فیصد خلیج فارس کے ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے۔
خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک بھارت کے اہم تجارتی پارٹنرز ہیں سال 2021-22میں متحدہ عرب امارات امریکہ اور چین کے بعد تیسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر رہا۔ سعودی عرب بھارت کا چوتھا اور عراق پانچواں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
بھارت کے لیے خلیجی ملکوں کی اہمیت
سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی وزیر اعظم مودی خلیجی ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان رویش کمار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں مودی حکومت عرب اور مسلم ملکوں کے ساتھ زیادہ قریبی اور مستحکم تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے اور وزیر اعظم مودی اس کے لیے ذاتی طور پر جس قدر کوششیں کررہے ہیں اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے خود بھی دسمبر 2019 میں ایک عوامی جلسے سے خطا ب کرتے ہوئے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا، ''اپنی تاریخ میں بھارت کے خلیجی ملکوں کے ساتھ اس وقت سب سے بہتر تعلقات ہیں۔‘‘
لیکن اہانت پیغمبر اسلام کے تنازعے نے حالات بدل دیے ہیں۔ مغربی ایشیائی امور کی ماہر پروفیسر سجاتا مہتا نے لکھا ہے،''بی جے پی کی گھریلو سیاست خارجہ پالیسی کے لیے نقصان دہ ہے۔ گھریلو سیاست کا اثر خارجہ پالیسی پر بھی پڑتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بھارتی خلیجی ملکوں میں کام کررہے ہیں،ایسی گھریلو سیاست ان کی روزی روٹی پر اثرانداز ہوگی اور عرب ملکوں کی ناراضگی سے بھارت کو جو نقصان ہوگا وہ کافی بھاری پڑے گا۔‘‘