بھارت: تنہا رہنے والی خواتین پر سب کی نظر کیوں؟
22 نومبر 2025
چالیس سالہ سُتاپا سِکدار کے لیے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے مضافات میں اپنا گھر لینے کی وجہ سے زمین مالکان اور بروکروں کی جانب سے اپنی ازدواجی حیثیت سے متعلق سوالات کے انبار کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں، ''مجھے کچھ جگہوں پر رہنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ میں عورت ہوں۔‘‘ سِکدار کے بقول، ''اگر آپ سنگل یا طلاق یافتہ ہیں تو مالکان کہتے تھے کہ وہ اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘
سِکدار کا تجربہ غیر معمولی نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو نےبھارت کے مختلف شہروں میں اکیلے رہنے والی نصف درجن سے زیادہ خواتین سے بات کی۔ بڑے شہری مراکز جیسے کہ ممبئی، دہلی اور بنگلور سے لے کر چھوٹے شہروں جیسے رائے پور تک، بہت سی خواتین کو رہائش میں امتیاز اور محلے کی کڑی نگرانی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ انہیں مسلسل اپنی حفاظت اور آزادی کے درمیان توازن بھی قائم رکھنا پڑتا ہے۔
روزمرہ کی سطح پر وہ اکثر ایسے مکان مالکان سے ملتی ہیں، جو بغیر خاندان کے یا تنہا خواتین کرایہ داروں کو مسترد کر دیتے ہیں۔ جو خواتین گھر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نئے پڑوسی مسلسل ان کی حرکات پر نظر رکھتے ہیں۔
کرایے پر گھر لینا نہایت مشکل
بھارت کے ساحلی شہر چنئی سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ سنگیتا راجن اب ایک مشترکہ اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔ اگرچہ وہ پہلے اکیلی رہ چکی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل مشکل تھا۔ سنگیتا مزید کہتی ہیں، ''جہاں بھی میں گئی، بروکرز یہ پوچھتے تھے کہ کیا میں سنگل ہوں یا شادی شدہ، یا کسی کے ساتھ رہ رہی ہوں؟‘‘
انہوں نے کہا، ''فلیٹ تلاش کرنا مشکل نہیں تھا لیکن جگہ کو برقرار رکھنا، اسے نفسیاتی اور جسمانی طور پر محفوظ محسوس کرنا اصل چیلنج ہے۔‘‘
ایک نئے اپارٹمنٹ میں منتقل ہونے کے صرف ایک ماہ بعد پڑوسیوں نے اس کے مالک مکان سے شکایت کرنا شروع کر دی کہ ''اُن کے بہت سے لڑکے دوست گھر آتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ''شراب پینے یا تمباکو نوشی کے بارے میں بہت باتیں بنائی جاتی ہیں۔‘‘
رائے پور میں رہنے والی 29 سالہ خاتون، جو اپنا نام سنجنا بتانا چاہتی ہیں، کے لیے مشکلات اس وقت بھی ختم نہیں ہوئیں، جب انہیں رہنے کی جگہ مل گئی۔
سنجنا نے ایک واقعہ بیان کیا۔ ایک روز جب انہوں نے صبح سویرے ایک مرمت کرنے والے کارکن کو اندر جانے کی اجازت دینے کے لیے دروازہ کھولا۔ وہ بتاتی ہیں، ''میں نے ایک نائٹ گاؤن پہنا ہوا تھا اور نیچے والی خاتون نے مجھے بعد میں فون کیا کہ اس کے دو نوجوان لڑکے ہیں اور پوچھا کہ کیا میں جس قسم کے کپڑے پہنتی ہوں اس پر مجھے شرم نہیں آتی؟‘‘
آخر کار سنجنا کے مالک مکان نے اُن سے رات بھر آنے والوں کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دی اور ہدایت کی کہ '' وہ اپنی حدود میں رہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والی نئی دہلی کی ایک 32 سالہ خاتون ایشوریہ دعا نے کہا کہ ایک عورت، جو بظاہر خود سے جینا چاہتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ ''اسے بہت بولڈ یا بہت ماڈرن ہونا چاہیے۔‘‘
دعا نے مزید کہا، ''میری جیسی خواتین کو بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیشہ اونچی آواز میں یا پرتشدد انداز میں ہی نہیں بلکہ مسلسل، شکوک و شبہات، گھورنے اور سرپرستی کی پیشکش کے ذریعے بھی۔‘‘
دعا کا کہنا تھا، ''مجھے صرف کام کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے جگہ چاہیے تھی، نہ کہ اجنبیوں کے سامنے اپنے کردار کی صفائی پیش کرتے رہنے کے لیے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد