1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ

جاوید اختر، نئی دہلی
4 جنوری 2021

بھارت کے قومی خواتین کمیشن کا کہنا ہے کہ سال 2020میں اسے خواتین کے خلاف جرائم کی 23 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں جو گزشتہ چھ برسوں میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

Indien Vergewaltigung Proteste
تصویر: AP

بھارت کے قومی خواتین کمیشن کے مطابق کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاون کے دوران خواتین کے مصائب میں مزید اضافہ ہوا اور انہیں گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سال 2020کے دوران خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طورپر 23722شکایتیں درج کرائی گئیں۔

خواتین کمیشن کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی خواتین اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ قومی خواتین کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں تقریباً ایک چوتھائی گھریلو تشدد سے متعلق تھے۔

گوکہ خواتین کے خلاف ہونے والے گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات پر 'خاندان کی عزت‘ کے نام پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور متاثرہ خواتین بھی مختلف اسباب کی بنا پر خاموشی اختیار کر لینے میں عافیت محسوس کرتی ہے تاہم اس کے باوجود سال2020میں گھریلو تشدد کی 5294 شکایتیں خواتین کمیشن کے پاس پہنچیں۔

سب سے زیادہ شکایتیں اترپردیش سے

قومی خواتین کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ برس خواتین کے خلاف جرائم کی سب سے زیادہ 11872 شکایتیں اترپردیش سے موصول ہوئیں۔ اس کے بعد بھارتی دارالحکومت دہلی سے 2635شکایتیں جب کہ ہریانہ اور مہاراشٹر میں بالترتیب 1266 اور 1188 شکایتیں موصول ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق 7708شکایتیں 'باوقار زندگی گزارنے کا حق‘ کی خلاف ورزی کی شق کے تحت درج کرائی گئیں۔ باوقار زندگی گزارنے کا حق کی خلاف ورزی کے تحت ان شکایتوں کا اندراج کیا جاتا ہے جن میں متاثر ہ خاتون جذباتی استحصال کی شکایت کرتی ہے۔

قومی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ”اقتصادی عدم تحفظ، تناؤ میں اضافہ، پریشانی، مالیاتی فکرمندی اور والدین یا کنبے کی طرف سے جذباتی حمایت کی کمی کے سبب سن 2020میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔"

لاک ڈاون بھی تشدد میں اضافے کا سبب

ریکھا شرما کا مزید کہنا تھا گزشتہ برس کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب ”میاں بیوی کے لیے گھر ہی دفتر بن گیا اورحتی کہ ان کے بچوں کے لیے اسکول اور کالج بھی۔ اس دوران خواتین کو گھر سے دفتری کام کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے اور گھریلوکام بھی کرنے پڑے۔ اس لیے گزشتہ چھ برسوں میں خواتین کے خلاف تشدد کی سب سے زیادہ شکایتیں سال 2020میں درج کی گئیں۔ اس سے پہلے سال 2014میں کمیشن کو 33906شکایتیں موصول ہوئی تھیں۔"

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ میں بھار ت میں لاک ڈاون کے بعد سے قومی خواتین کمیشن کے پاس گھریلو تشدد کی شکایتوں کی بھرمار ہوگئی۔ خواتین کے پاس اس دوران گھر سے باہر جانے کا کوئی متبادل نہیں تھا اور انہیں گھرپر تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جولائی کے مہینے میں گھریلو تشدد کی سب سے زیادہ 660شکایتیں موصول ہوئیں۔

ریکھا شرما کا کہنا تھا، ”کوِوڈ 19کے سبب لاک ڈاون کی وجہ سے خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے معاملات کی شکایت درج کرانے کا موقع کم ہوگیا۔ خواتین کو گھریلو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے والے قانون کے تحت کام کرنے والی مشنری کو لاک ڈاون کے دوران لازمی خدمات کے زمرے میں نہیں رکھا گیا تھا، جس کی وجہ سے حکام اور غیر سرکاری تنظیموں کے اہلکار متاثرین کے گھر نہیں پہنچ سکے۔" 

ریکھا شرما نے خواتین سے اپیل کی کہ وہ تشدد کے خلاف کسی بھی طرح کے واقعہ کی شکایت کے لیے کمیشن سے رابطہ کرنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔

تشدد ہر حال میں غلط

خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے اقو ام متحدہ کی عوامی بیداری مہم میں حال ہی میں شامل ہونے والی بھارتی ماڈل اور ادکارہ مانوشی چھلر نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ”خواتین ہر جگہ مختلف طرح کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور یہ سب دیکھ کر انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔"

مانوشی کا مزید کہنا تھا،”خواتین کو تشدد کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اور دوسری خواتین کو بھی ایسا کرنے کے لیے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔"

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن شمینہ شفیق کہتی ہیں کہ حکومت کو گھریلو تشدد کے خلاف سختی برتنے کی ضرورت ہے۔ ”بدقسمتی سے مرد یہ سمجھتا ہے کہ عورت کو مارنا پیٹنا اس کا حق ہے اور یہ سوچ کر اسے طمانیت محسوس ہوتی ہے کہ کسی دوسرے کی زندگی اس کے کنٹرول میں ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بیوی پر تشدد ہر حال میں غلط ہے۔"

بھارتی گاؤں، جہاں جسم فروشی معمول کی بات ہے

02:54

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں