بھارت: خودکشی معاملے میں صحافی ارنب گوسوامی کی گرفتاری
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
4 نومبر 2020
بھارت میں متعدد وفاقی وزراء نے صحافی ارنب گوسوامی کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ صحافیوں کی انجمن نے بھی اسے غلط بتایا ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ صحافیوں سے متعلق حکومت کو دوہرے معیار کے بجائے یکساں موقف کا مظاہرہ کرناچاہیے۔
اشتہار
بھارتی ریاست مہاراشٹر کی پولیس نے خودکشی پر آمادہ کرنے کے ایک کیس کے معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے خودپسند صحافی ارنب گوسوامی کو حرا ست میں لیا ہے۔ ان کے خلاف یہ کیس 2018 میں درج کیا گیا تھا۔ رائے گڑھ علاقے کے سینیئر پولیس افسر سنجے موہیتے کا کہنا تھا، ''ارنب گوسوامی کو رائے گڑھ لے جایا جا رہا ہے۔ تفتیشی حکام ان سے پوچھ گچھ کریں گے اور پھر اسی جانچ کی بنیاد پر آگے کی کارروائی کے حوالے سے فیصلہ کیا جائیگا۔''
ارنب گوسوامی کا الزام ہے کہ حراست میں لینے کے دوران پولیس نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔ ارنب گوسوامی بی جی پی کی حکومت کے حامی اور دائیں بازو کے نظریات کو فروغ دینے والے متنازعہ چینل 'ریپبلک ٹی وی' کے ایڈیٹر ہیں۔ سن 2018 میں ایک خاتون آرکیٹکٹ نے ریپبلک ٹی وی پر پیسے نہ ادا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق خاتون اور اس کی ماں نے خودکشی کر لی تھی اور اپنے نوٹ میں موت کے لیے ارنب گوسوامی پر الزام عائد کیا تھا۔
خودکشی کرنے والی خاتون کے اہل خانہ نے اس کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا اوراسی وجہ سے اس کیس میں پوچھ گچھ کے لیے ارنب گوسوامی کو حراست میں لیا گیا ہے۔ مودی حکومت کے بیشتر سینیئر وزراء نے ارنب گوسوامی کے ساتھ اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایمرجنسی کے دور سے تعبیر کیا ہے۔
بھارت میں صحافیوں کی انجمن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا ارنب گوسوامی کی صحافت اور ان کے جانبدارانہ رویے پر اکثر سوال اٹھاتی رہی ہے تاہم اس نے بھی ان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ ادارے کے جنرل سکریٹری سنجے کپور کا کہنا تھا کہ ''حکومتیں کسی نہ کسی بہانے مدیروں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہی ہیں جو قابل مذمت ہے اور اسی وجہ سے ہم نے ارنب گوسوامی کا بھی دفاع کیا ہے۔''
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے پریس فریڈم انڈکس 2018 جاری کر دیا ہے، جس میں دنیا کے 180 ممالک میں میڈیا کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے درجہ بندی کی گئی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال جانیے، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture alliance/dpa/N. Khawer
بھوٹان
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی بھوٹان میں حاصل ہے اور اس برس کے پریس فریڈم انڈکس میں بھوٹان 94 ویں نمبر پر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انڈکس میں بھوٹان 84 ویں نمبر پر تھا۔
تصویر: DJVDREAMERJOINTVENTURE
نیپال
ایک سو اسّی ممالک کی فہرست میں نیپال عالمی سطح پر 106ویں جب کہ جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر رہا۔ نیپال بھی تاہم گزشتہ برس کے مقابلے میں چھ درجے نیچے چلا گیا۔ گزشتہ برس نیپال ایک سوویں نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Maharjan
افغانستان
اس واچ ڈاگ نے افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس برس کی درجہ بندی میں افغانستان نے گزشتہ برس کے مقابلے میں دو درجے ترقی کی ہے اور اب عالمی سطح پر یہ ملک 118ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں افغانستان تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/Tone Koene
مالدیپ
اس برس کے انڈکس کے مطابق مالدیپ جنوبی ایشیا میں چوتھے جب کہ عالمی سطح پر 120ویں نمبر پر ہے۔ مالدیپ گزشتہ برس 117ویں نمبر پر رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo(M. Sharuhaan
سری لنکا
جنوبی ایشیا میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سری لنکا میں میڈیا کی آزادی کی صورت حال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ سری لنکا دس درجے بہتری کے بعد اس برس عالمی سطح پر 131ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: DW/Miriam Klaussner
بھارت
بھارت میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، جس پر رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی درجہ بندی میں بھارت اس برس دو درجے تنزلی کے بعد اب 138ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/S. Bandopadhyay
پاکستان
پاکستان گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی عالمی سطح پر 139ویں نمبر پر رہا۔ تاہم اس میڈیا واچ ڈاگ کے مطابق پاکستانی میڈیا میں ’سیلف سنسرشپ‘ میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے کم آزادی بنگلہ دیش میں حاصل ہے۔ گزشتہ برس کی طرح امسال بھی عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش 146ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stache
عالمی صورت حال
اس انڈکس میں ناروے، سویڈن اور ہالینڈ عالمی سطح پر بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ چین 176ویں جب کہ شمالی کوریا آخری یعنی 180ویں نمبر پر رہا۔
9 تصاویر1 | 9
صحافیوں سے متعلق حکومت کا رویہ یکساں ہونا چاہیے
ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں سنجے کپور نے کہا کہ ارنب گوسوامی جس طرح کی جانبدارانہ صحافت کرتے ہیں وہ ہرگز پسندیدہ نہیں تاہم ان کے خلاف اس طرح کی کارروائی بھی درست نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں تو بعض مرکزی وزراء کی جانب سے اتنا سخت رد عمل سامنے آیا جبکہ حالیہ دنوں میں فضول الزامات کے تحت درجنوں صحافیوں کی گرفتاریاں ہوئیں اور انہیں جیلوں میں رکھا گیا لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ ''اس معاملے میں حکومت کا رد عمل میں یکساں نہیں ہے۔''
اشتہار
انہوں نے کہا، ''آج وزیر داخلہ امیت شاہ، اسمرتی ایرانی اور دیگر تمام وزراء نے پریس کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ جب بھی، کہیں بھی، کسی صحافی کے ساتھ ظلم ہو تو اسے اسی طرح کے بیانات دینے چاہئيں۔ صرف انہیں لوگوں کا دفاع نہیں کرنا چاہیے جو آپ کے قریب ہوں یا آپ ان سے اتفاق رکھتے ہیں۔ اس سے متعلق قانون اور نظریہ یکساں ہونا چاہیے، یہ نہیں کے ایک کے ساتھ زیادتی ہو تو آپ اس کی مدد کریں اور باقی سے آپ کا کوئی مطلب ہی نہیں۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ ''اگر حکومت میڈیا کی آزادی کے تئیں سنجیدہ ہے اور وہ یہ کہتی ہے کہ اس سے سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے، تو جہاں کہیں بھی صحافی کے ساتھ زیادتی ہو حکومت کو اس کا دفاع کرنا چاہیے۔ اس پر حکومت کے رد عمل میں یکسانیت ہونی چاہیے۔''
’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘
04:44
اس سے پہلے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ارنب گوسوامی کی گرفتاری کو پریس کی آزادی پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ جو لوگ میڈیا کی آزادی میں یقین رکھتے ہیں انہیں اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس کے لیے مہاراشٹر میں کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس سے انہیں ایمرجنسی کا دور یاد آگیا۔ مودی حکومت کے بہت سے دیگر وزاراء نے بھی اسی طرح کے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔اطلاعات ونشریات کے وفاقی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے بھی ارنب گوسوامی کی گرفتاری کی مخالفت کی۔
بھارت میں مودی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی میڈیا اور صحافیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم 'رائٹس اینڈ رسک انالیسس گروپ' کے مطابق اس برس مارچ سے مئی کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں 55 صحافیوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے۔ سب سے زیادہ مقدمات بی جے پی کے اقتدار والی ریاست اترپردیش کے صحافیوں کے خلاف درج ہوئے جہاں گیارہ صحافی جیل بھیجے گئے۔ دوسرے نمبر پر جموں و کشمیر ہے جہاں صحافیوں کو آئے دن ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ حراست میں لیے جانے والے ایسے صحافیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے اثاثوں کو تباہ کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
لیکن ان تمام واقعات پر مودی کی مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی ہے۔ اسی ہفتے مودی حکومت نے کشمیر کے معروف اخبار 'کشمیر ٹائمز' کے سرینگر کے دفتر کو تالا لگا دیا تھا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے اس کے خلاف یہ انتقامی کارروائی کی گئی۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
10 تصاویر1 | 10
بھارت میں بعض سیاسی تجزیہ کار اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت اپنے خلاف کوئی بھی رپورٹ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اپنے ایڈیٹروں کو صرف اس لیے نکالنا پڑا کیوں کہ ان کے اداریوں سے حکومت پریشانی محسوس کررہی تھی۔
یورپ کے دو بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک مشترکہ مکتوب بھیج کر فوری طور پر ایسے اقدمات کرنے کی اپیل کی ہے جس سے بھارت میں موجود صحافی بلا خوف و ہراس اپنا کام ایمانداری سے انجام دے سکیں۔ یہ مکتوب آسٹریا میں موجود عالمی میڈیا ادارے 'انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ' اور بیلجیئم کے 'انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ' نے لکھا تھا۔
اس خط میں کہا گیا تھا کہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں درجنوں صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں، خاص طور پر انتہائی سخت اور سیاہ قانون کے تحت بغاوت جیسے مقدمات ان کے کام کی وجہ سے دائر کیے گئے ہیں۔ مشترکہ خط میں وزیر اعظم مودی سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ریاستوں کو اس طرح کے بے جا مقدمات واپس لینے کی ہدایت کریں۔