بھارت: دو پاکستانی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم
جاوید اختر، نئی دہلی
1 جون 2020
بھارت نے نئی دہلی میں تعینات دو پاکستانی سفارت کاروں پر جاسوسی کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں ’ناپسندیدہ‘ قرار دے کر 24 گھنٹے میں ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے لیکن پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اشتہار
گزشتہ چار برسوں میں بھارت کی طرف سے پاکستانی ہائی کمیشن کے کسی افسر کو اپنے ملک سے نکالنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 2016 میں دونوں ملکوں نے جاسوسی کے الزام میں ایک دوسرے کے سفارت خانوں کے ایک ایک افسر کو ملک سے نکال دیا تھا۔
بھارت کے اس تازہ اقدام سے جوہری طاقت سے لیس دونوں ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارتی اہلکار ’جاسوسی میں ملوث‘ تھے جنہیں 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے”حکومت نے دونوں پاکستانی سفارتی عملے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے جو ’سفارتی آداب کے خلاف کارروائیوں‘ میں ملوث تھے۔“
بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے”پاکستانی ہائی کمیشن سے بھارت کی قومی سلامتی کے خلاف ان عہدیداروں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں سخت احتجاج بھی درج کرایا گیا اور متعلقہ ذمہ داران سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سفارتی مشن کا کوئی بھی رکن بھارت میں غیرمجاز سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو یا ان کی سفارتی حیثیت سے متضاد انداز میں برتاؤ نہ کرے۔“
پاکستان نے بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارتی اہلکاروں کو ناپسندیدہ قرار دینے کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو ناپسندیدہ قرار دینا اور انہیں 24 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم قابل مذمت ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کا عمل منفی اور پہلے سے طے شدہ ’میڈیا مہم‘ کا حصہ ہے اور یہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا تسلسل ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کے مطابق بھارتی حکام نے پاکستانی ہائی کمیشن کے دو اراکین کو اٹھایا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور پاکستان ہائی کمیشن کی مداخلت پر انہیں رہا کیا گیا۔ عائشہ فاروقی کے مطابق”تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پاکستانی سفارتی عملے کو الزام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔“
نئی دہلی میں سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستانی ہائی کمیشن کے ان دونوں افسران کے نام عابد حسین اور محمد طاہرہیں۔ انہیں دہلی کے قرول باغ علاقے میں اس وقت رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا گیا جب وہ ایک شخص سے بھارتی سیکورٹی تنصیبات کے متعلق دستاویزات حاصل کر رہے تھے۔ ان دونوں نے مذکورہ شخص کو پیسے اور ایک آئی فون بھی دیا تھا۔ ابتداء میں ان دونوں پاکستانی افسران نے بھارتی شہری ہونے کا دعوی کیا اور فرضی آدھار کارڈ (شناخت نامہ) بھی پیش کیا۔ لیکن جب ان سے سختی سے پوچھ گچھ کی گئی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ پاکستانی ہائی کمیشن کے افسران ہیں اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لیے کام کرتے ہیں۔
بھارتی سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اس واقعہ کے بعد پاکستانی ہائی کمیشن کے ناظم الامور سید حیدرشاہ کو طلب کیا گیا اور بھارتی وزارت خارجہ نے ان پاکستانی افسران کی ’بھارت کی قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں‘ پر سخت احتجاج کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں پاکستانی افسران کے خلاف پولیس میں معاملہ درج کرانے کے بعد انہیں پاکستانی ہائی کمیشن کے حوالے کردیا گیا۔
بھارت کے اس تازہ اقدام سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں مودی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردیے جانے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اپنے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلالیا ہے اور ڈپٹی ہائی کمشنر کمیشن کے سربراہ کے طور پر کام کررہے ہیں۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔