1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام کا اعلان

جاوید اختر، نئی دہلی
24 جون 2021

بھارتی صوبے میزورم کے ایک وزیر نے یہ 'ترغیبی‘ اعلان ایسے وقت کیا ہے جب ملک کی بعض دیگر ریاستیں آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے 'تادیبی‘ اقدامات کے منصوبے بنارہی ہیں۔

Indien Amritsar  Schwangere Frauen
تصویر: Getty Images/AFP/N. Nanu

بھارت کی شمال مشرقی ریاست میزورم میں نوجوانوں کے امور، اسپورٹس اور سیاحت کے وزیر رابرٹ روماویا روئٹے نے گزشتہ دنوں باضابطہ ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنے انتخابی حلقے میں سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو فی کس ایک لاکھ روپے نقد انعام کے طور پر دیں گے۔

آئزول مشرق حلقے کی میزورم اسمبلی میں نمائندگی کرنے والے ریاستی وزیر روئٹے نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے مرد یا عورت کو ایک سند اور ٹرافی بھی دی جائے گی۔ انہوں نے تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ بچوں کی کم از کم تعداد کتنی ہونی چاہیے۔

میزورم کے زیونا چانا نے 38 شادیاں کی تھیں اور ان کے 94 بچے پیدا ہوئے-ان کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں کی مجموعی تعداد 200 ہے- چانا کا ۱۳ جون کو انتقال ہو گیا۔تصویر: dpa/picture alliance

زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب کی وجہ

میزورم میں آبادی کا تناسب صرف 52 افراد فی مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2018 کی رپورٹ کے مطابق  بھارت کی آبادی کا قومی اوسط 454 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی دس لاکھ اکیانوے ہزار 214 تھی۔ یہ بھارت کی دوسری سب سے کم گنجان آباد ریاست ہے۔ سب سے کم ترین گنجان آبادی والی ریاست اروناچل پردیش ہے جہاں فی مربع کلومیٹر 17 افراد آباد ہیں۔

میزورم کے ریاستی وزیر کا کہنا ہے کہ ریاست میں بانجھ پن اور آبادی کی گرتی ہوئی شرح انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ روئٹے کے بقول، ”میزورم میں لوگوں کی کم تعداد کے سبب مختلف شعبوں میں ترقی حاصل کرنا مشکل ہورہا ہے۔ کم آبادی میزو جیسے چھوٹے قبائل کی بقاء اور ترقی کے لیے بھی رکاوٹ اور سنگین مسئلہ ہے۔‘‘

آسام کے وزیر اعلی نے گزشتہ دنوں دو بچہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فلاحی اسکیموں کا فائدہ انہی لوگوں کو مل سکے گا جن کے صرف دو بچے ہیں۔تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images

بعض بھارتی ریاستیں بالکل مختلف راستے پر

زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام کی یہ اسکیم میزورم کی پڑوسی ریاست آسام سے یکسر مختلف ہے، جہاں حکومت سرکاری ملازمتوں کے لیے دو بچہ پالیسی نافذ کررہی ہے اور حکومت فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دو بچے کی شرط نافذ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔

آسام کے وزیر اعلی ہیمنتا بسوا سرما نے گزشتہ دنوں دو بچہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کی بعض فلاحی اسکیموں کا فائدہ انہی لوگوں کو مل سکے گا جن کے صرف دو بچے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس اعلان کی یہ کہہ کر مخالفت بھی کی گئی تھی کہ سرما کے اپنے چھ بھائی بہن ہیں۔

آسام نے پنچایت کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی صرف دو بچوں کی شرط عائد کر رکھی ہے۔

ادھر بی جے پی کی حکومت والی ایک اور ریاست اترپردیش میں لا کمیشن کے چیئرمین نے بھی آبادی کی وجہ سے ریاست میں بعض مسائل پیدا ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے دو بچہ پالیسی نافذ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

بھارت کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ حلف نامے میں کہا ہے کہ فیملی پلاننگ کی نوعیت رضاکارانہ ہے۔ تصویر: Reuters

مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے موقف میں تضاد

ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی آبادی کے مسئلے کو ایک سیاسی موضوع کے طورپر اٹھاتی رہی ہے۔ وہ آبادی میں اضافے کے لیے خصوصی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔

بی جے پی کے رکن پارلیمان راکیش سنہا نے سن 2019 میں 'ٹو چائلڈ پالیسی‘  کے حوالے سے ایک پرائیویٹ ممبر بل پارلیمان میں پیش کیا تھا۔ اس بل میں بلدیاتی اداروں سے لے کر غریبوں کو سستے سرکاری راشن دینے کے ساتھ دو بچہ پالیسی نافذ کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ تاہم یہ بل منظور نہیں ہوسکا۔

دہلی میں بی جے پی کے رہنما اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے چین کی طرز پر ہی بھارت میں ٹو چائلڈ پالیسی نافذ کرنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن مودی حکومت نے اس پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسے نافذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بھارت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود نے گزشتہ دسمبر میں عدالت میں دائر کردہ حلف نامے میں کہا تھا کہ بھارت میں فیملی پلاننگ کی نوعیت رضاکارانہ ہے۔

بھارت نے آبادی اور ترقی کے حوالے سے سن 1994 کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کررکھے ہیں جوکہ فیملی پلاننگ میں زور زبردستی کی مخالفت کرتا ہے۔

سابق چیف الیکشن کمشنرایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کے اکثریت میں آجانے کا دعوی گمراہ کن ہے۔تصویر: DW/J. Akhtar

فائدہ کم، نقصان زیادہ

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ بالخصوص بھارت میں آبادی میں اضافے کے نقصانات کے حوالے سے دیے جانے والے دلائل گمراہ کن ہیں اور جن شعبوں میں دو بچہ پالیسی نافذ ہے وہاں فائدے کے بجائے نقصانات ہورہے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے واضح مثال پنچایت انتخابات کی ہے۔ ایک تحقیقاتی مطالعے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے لوگ خود کو امیدواری کا اہل ثابت کرنے کے لیے اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑنے لگے ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر دو بچہ پالیسی نافذ کردیا گیا تو بھارت میں بیٹے کی چاہت کے سبب صنفی انتخاب کا رجحان بڑھ جائے گا اور بیٹیوں کو رحم مادر میں قتل کردینے کے واقعات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ وسائل کی مساوی تقسیم اور مناسب سہولیات کے فقدان کا ہے۔

آبادی کے حوالے سے دلائل گمراہ کن

بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنی نئی کتاب The Population Myth: Islam, Family Planning and Politics in India میں آبادی کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اگر ایسا ہی رہا تو ان کی آبادی ہندوؤں سے بڑھ جائے گی اور وہ اقتدار پر قابض ہوجائیں گے۔

ایس وائی قریشیتصویر: UNI

قریشی نے لکھا ہے، ”ساٹھ برسوں میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً چار فیصد تک کم ہوئی ہے، جو دوسرے مذاہب میں تقسیم ہوگئی۔ مسلمانوں میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے لیکن اگر ساٹھ برس میں چار فیصد آبادی بڑھی تو اس حساب سے آبادی کو 40 فیصد بڑھنے میں چھ سو برس لگیں گے تب جاکر مسلمان بھارت کی آبادی کا پچاس فیصد ہو پائیں گے اور وہ بھی اس صورت میں جب فیملی پلاننگ کے طریقے نہ اپنائیں۔ یعنی جو لوگ روزانہ یہ خوف دکھاتے ہیں کہ جلد ہی مسلمانوں کا ملک پر قبضہ ہوجائے گا ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"

سابق چیف الیکشن کمشنر قریشی نے مزید لکھا ہے، ”اگر ریاستی حکومتیں سرکاری اسکیموں کا فائدہ صرف دو بچوں کے خاندان تک ہی محدود رکھنے کا منصوبہ بنارہی ہیں تو ا س سے نقصان کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوگا کیونکہ فلاحی منصوبو ں کا فائدہ نہیں ملنے سے غربت میں اضافہ ہوگا، جس کا اثر تعلیم پر بھی پڑے گا۔"

بھارت کی قبائلی آبادی کے لیے جنگل روزگار کا ذریعہ

02:48

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں