بھارت سری لنکا میں اپنا اثر و رسوخ کھونے پر پریشان
30 اکتوبر 2018بحر ہند میں بھارت کے جنوبی سرے کے قریب واقع آنسو کی شکل کا جزیرہ سری لنکا ان دنوں نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جاری تگ و دو کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بیجنگ پہلے ہی سری لنکا میں بندرگاہوں، پاور اسٹیشنوں اور ہائی ویز کی تعمیر کر چکا ہے جو ایشیا بھر میں اس کے ٹریڈ اینڈ ٹرانسپورٹ منصوبے کا حصہ ہیں۔
راجا پاکشے جب سری لنکا کے صدر تھے تو انہوں نے ملک کی مرکزی بندرگاہ کو چینی آبدوزوں کے لیے کھول دیا تھا، جس پر نئی دہلی حکومت کی طرف سے سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا۔ سری لنکا کے موجودہ صدر میتھری پالا سری سینا کی طرف سے راجا پاکشے کو اچانک ملک کا وزیر اعظم مقرر کرنے سے نئی دہلی کے ان تحفظات کو ہوا ملی ہے کہ چین جہاز رانی کے مرکزی راستے کے قریب موجود اس جزیرے پر اپنا اثر رسوخ مزید مضبوط کر لے گا۔
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بھارت چین تعلقات کے ماہر سری کانتھ کونداپالی کے مطابق، ’’اس وقت وہاں چین کو فوقیت حاصل ہے۔‘‘ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ بیجنگ نے راجا پاکشے پر کافی سرمایہ کاری کی ہے اور ان کے سیاسی حلقے میں ڈیڑھ بلین ڈالرز کی لاگت سے گہرے پانی کی ایک بندرگاہ اور ایک ایئرپورٹ تعمیر کیا ہے، اس کے علاوہ اس حلقے میں ایک صنعتی زون کی تعمیر کا بھی منصوبہ ہے۔
سری لنکا کے لیے چینی سفارت کار شینگ ژوی یوان ان اولین سفارت کاروں میں شامل تھے، جنہوں نے راجا پاکشے کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے فوری بعد ان سے ملاقات کی اور انہیں چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ کی طرف سے مبارکباد کا پیغام پہنچایا۔
سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا نے وزیر اعظم رانیل وکرمے سنگھے کو جمعہ 26 اکتوبر کو ان کے عہدے سے الگ کر کے سابق صدر مہیندا راجا پاکشے کو اس عہدے پر تعینات کر دیا تھا۔ وکرمے سنگھے کو بھارت نواز وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ابھی تک وزیر اعظم ہیں اور انہیں پارلیمان میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
سری لنکا ان ممالک میں شامل ہے جہاں بھارت اور چین کی طرف سے اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے مسابقت جاری ہے۔ ان میں بنگلہ دیش، نیپال اور مالدیپ بھی شامل ہیں۔ مالدیپ میں رواں ماہ کے آغاز میں چین نواز صدر عبداللہ یامین کو انتخابات کے حیران کن نتائج میں شکست ہو گئی تھی۔ اس پیشرفت کا امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے بھی خیر مقدم کیا گیا تھا۔
نئی دہلی حکام کا کہنا ہے کہ بھارتی سفارت کار راجا پاکشے کیمپ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور یہ کہ بھارت سری لنکا کی نئی حکومت کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے کو تیار ہے لیکن اگر نئے وزیر اعظم کی کی تقرری ملکی آئین کے مطابق ہوتی ہے تو۔
دوسری طرف بھارت کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ RSS کے رہنماؤں نے بھی راجا پاکشے سے رابطے کیے ہیں۔ آر ایس ایس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حامی ہے۔
ا ب ا / ا ا (روئٹرز)