1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کا صدر نامزد

جاوید اختر، نئی دہلی
8 جنوری 2021

بھارت نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر اپنی دو سالہ مدت کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ اس دوران وہ انسداد دہشت گردی اور طالبان سے متعلق اہم کمیٹیوں کی صدارت بھی کرے گا۔

UN-Sicherheitsrat | Nahost-Sitzung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Altaffer

اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے ٹی ایس تریمورتی نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا ”مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کی تین اہم کمیٹیوں کی صدارت کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان میں طالبان پر پابندیوں سے متعلق کمیٹی، انسداد دہشت گردی کمیٹی اور لیبیا پر پابندیوں سے متعلق کمیٹی شامل ہیں۔"

بھارت نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر اپنی ذمہ داریاں ایسے وقت سنبھالی ہیں، جب بالخصوص دو پڑوسی ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ چین کے ساتھ مشرقی سرحدوں پر گزشتہ نو ماہ سے زیادہ عرصے سے فوجی تعطل برقرار ہے جبکہ دہشت گردی کے معاملے پر دہلی اور اسلام آباد کے درمیان دوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔

بھارتی نمائندے نے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات کے پس منظر میں طالبان کمیٹی کی صدارت کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا۔  ٹی ایس تریمورتی کا کہنا تھا، ”طالبان پر پابندیوں سے متعلق کمیٹی، جسے 1988ء سینکشن کمیٹی بھی کہا جاتا ہے، افغانستان میں امن، سلامتی، ترقی اور بہبود کے تئیں نئی دہلی کی دلچسپی اور یقین دہانیوں کے مدنظر بھارت کے لیے ہمیشہ 'انتہائی ترجیح‘ کا حامل رہا ہے۔"

اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے نے گوکہ پاکستان کا نام نہیں لیا تاہم کہا، ”اس مرحلے میں اس کمیٹی کی صدارت سے ہمیں دہشت گردوں، ان کی اعانت کرنے والوں اور افغانستان میں امن کوششوں کو نقصان پہنچانے والوں پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی۔ ہمارا یہ دیرینہ موقف ہے کہ امن کی کوششوں اور تشدد ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔"  خیال رہے کہ نئی دہلی افغانستان میں تشدد کے واقعات کے لیے اسلام آباد کو بھی مورد الزام ٹھہراتا رہا ہے۔

زیادہ پرامید نا ہوں

اسٹریٹیجک امور کے ماہر سی راجا موہن کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں بھارت کو بہت زیادہ پرامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ بڑی عالمی طاقتوں کے مابین شدید اختلافات کی وجہ سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل ایک غیر موثر ادارہ بنتا جارہا ہے۔ راجا موہن کا خیال ہے،”چین دیگر دو ایشیائی طاقتوں بھارت اور جاپان کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی آسانی سے اجازت نہیں دے گا۔ ایسے میں بھارت کو جرمنی، جاپان اور برازیل کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل کی توسیع کی مہم جاری رکھنی چاہیے۔"

بھارت سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی سے متعلق کمیٹی کی سن 2022 میں صدارت کرے گا۔ ٹی ایس تریمورتی کا کہنا تھا،”اس کمیٹی کی صدارت بھارت کے لیے خاص معنی رکھتی ہے۔ بھارت دہشت گردی اور بالخصوص سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف ہمیشہ آگے رہا ہے بلکہ وہ دہشت گردی سے بری طرح متاثر بھی ہوا ہے۔"

بھارت دہشت گردی اور کشمیر میں عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے حوالے سے پاکستان پر مستقل الزام عائد کر رہا ہے حالانکہ اسلام آباد نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے اور بھارت پر کشمیریوں کے انسانی اور بنیادی حقوق کو پامال کرنے کا جوابی الزام عائد کرتا ہے۔

بھارت یورپی پارٹنرز سے تعلقات مستحکم کرے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کا دو برس کے لیے عارضی رکن بننے کے بعد اب بھارت، پاکستان کے خلاف کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کا رکن ہونے کی حیثیت سے بھارت انسانیت کے دشمنوں بشمول دہشت گردوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرے گا اور ہمیشہ امن، سلامتی اور خوشحالی کے حق میں بات کر ے گا۔

اسٹریٹیجک امور کے ماہر سی راجا موہن کا مشورہ ہے کہ بھارت کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں امن اور سکیورٹی جیسے امور کو اٹھاتے رہنا چاہیے کیوں کہ اس سے اسے کواڈ (آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکا پر مشتمل گروپ) جیسے نئے اتحاد کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ اسے اپنی دوسالہ مدت کے دوران سکیورٹی جیسے امور پر جرمنی اور فرانس جیسے یورپی ساتھی ممالک کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم کرنے چاہییں،''دہلی کوچاہیے کہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے باوجود ماسکو کے ساتھ بین الاقوامی امور پر بھی تفصیلی مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے۔‘‘

سلامتی کونسل کے قیام کے بعد یہ آٹھواں موقع ہے جب بھارت کو دوسالہ غیر مستقل رکنیت حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان اب تک سات مرتبہ غیر مستقل رکن رہ چکا ہے۔

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

04:13

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں