گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایک سو سے زائد سیاسی رہنماؤں نے اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کی ہیں۔ کچھ نے الیکشن میں ٹکٹ نہ ملنے تو کچھ نے پسندیدہ حلقہ سے ٹکٹ نہ ملنے پر اپنی پارٹی چھوڑ کر حریف جماعت کا دامن تھام لیا ہے۔
اشتہار
’اس حمام میں‘
انتخابی سرگرمیوں سے وابستہ غیر حکومتی تنظیم ’چانکیہ‘ کے مطابق پچھلے چند ہفتوں کے دوران ایک سو سے زائد سیاسی رہنما اپنی وفاداریاں تبدیل کرچکے ہیں۔ ان میں معروف فلم اداکار، سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی کے رہنما شتروگھن سنہا، فلم اداکارہ اور سابق رکن پارلیمان جیہ پردا، سابق مرکزی وزیر سکھ رام شرما، سابق کرکٹر اور ممبر پارلیمان کرتی آزاد وغیرہ شامل ہیں۔
بیشتر رہنماؤں نے اپنی پارٹی چھوڑنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کا دامن تھاما ہے۔ ساتھ ہی جن دس موجودہ اراکین پارلیمان اور انتیس ممبران اسمبلی نے پارٹی تبدیل کی ہے، ان میں سے بالترتیب چار اور دس بی جے پی میں شامل ہوئے جب کہ تین ممبران پارلیمان اور ایک ممبر اسمبلی نے کانگریس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ صرف قومی جماعتوں ہی نہیں بلکہ علاقائی جماعتوں کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔
’اصول پرستی کا دعوی صرف دکھاوا‘
بھارت میں سیاسی جماعتیں یوں تو نظریات اور اصولوں کے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن بالخصوص انتخابات کے دوران یہ دعوے ہوا ہو جاتے ہیں اور صرف ایک اصول مدنظر رکھا جاتا ہے کہ امیدوار میں جیتنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ چونکہ تمام سیاسی جماعتیں زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنا چاہتی ہیں اس لیے جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے امیدواروں کو اپنی طرف لانے کی خاطر مختلف حربے اپنائے جاتے ہیں۔ جن میں حکومت میں آنے کے بعد وزارت یا کسی اہم ادارے کا سربراہ بنانے کا لالچ عام بات ہے۔
انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد اور حکومت سازی کے دوران بالخصوص کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملنے کی صورت میں بھی ایک پارٹی کے اراکین کو دوسری حریف پارٹی اپنی طرف لانے کے لیے مختلف چالیں چلتی ہے۔ حالانکہ بھارت میں اس طرح کی کوششوں پر لگام لگانے کے لیے (Anti Defection) کے نام سے ایک قانون موجود ہے تاہم گزشتہ کئی دہائیوں کے واقعات شاہد ہیں کہ اس قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس قانون کی سب سے زیادہ خلاف ورزی حکومت وقت جماعت یعنی بے جے پی نے کی ہے۔
گزشتہ برسوں میں بالخصوص صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملنے کی وجہ سے حکومت سازی کے لیے ہر سیاسی جماعت توڑ جوڑ کا حربہ اپناتی رہی ہے۔ ایسے میں پارٹیاں اپنے منتخب اراکین کو اپنے ’قبضے‘ میں رکھنے کے لیے انہیں صوبہ سے دور کسی پرفضا مقام پر واقع کسی ہوٹل میں زبردستی مہمان بنا دیتی ہیں۔ لیکن کچھ اراکین اتنے شاطر ہوتے ہیں کہ بیماری کا بہانہ بنا کر یا کوئی دوسرا عذر پیش کر کے پارٹی کی گرفت سے نکل جاتے ہیں اور مخالف پارٹی سے سودے بازی شروع کردیتے ہیں۔
’وفاداری تبدیل نہ کرنے قانون‘
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سیاسی وابستگی تبدیل کرنے کی بیماری پر قابو پانے کے لیے سن 1985میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سیاسی وابستگی تبدیل کرنے کے خلاف ایک قانون منظور کرایا۔ جسے بھارتی آئین کے دسویں شیڈول میں شامل کیا گیا۔ دسویں شیڈول کے پیش لفظ میں کہا گیا ہے’’سیاسی وفاداری کی تبدیلی کی لعنت قومی سطح پر تشویش کا باعث ہے۔ اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ ہماری جمہوریت کی بنیادوں اور ان اصولوں، جن پر یہ قائم ہے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس بل کا مقصد سیاسی وابستگی کو غیرقانونی قرار دینا ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ اس قانون کے نفاذ کو تقریباً پینتیس برس گزر گئے اس دوران سیاست دانوں نے اپنے مفادات کے لیے اس قانون کی بارہا خلاف ورزی کی اور اب جب کہ عام انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، اس قانون کی خلاف ورزیاں اپنے عروج کو چھورہی ہیں۔
’سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے قانون میں خامیاں‘
اس قانون کے مطابق اگر کوئی رکن پارلیمان یا رکن اسمبلی پارٹی موقف کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا پارٹی کی ہدایت کے باوجود ووٹنگ کے دوران ایوان سے غیر حاضر رہتا ہے تو اسے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم بعض دانشورورں کا کہنا ہے کہ یہ قانون خامیوں سے پاک نہیں ہے۔
پارلیمانی جمہوریت پر تحقیقی کام کرنے والے ادارہ پی آر ایس لیجس لیٹو ریسچ میں پروگرام افسر ٹینا رے کا اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے کہنا تھا، ’’اس قانون کی خامی یہ ہے کہ ممبر پارلیمان یا ممبر اسمبلی کو کسی قانون سازی میں اپنی رائے دینے کی آزادی نہیں ہوتی۔ وہ حکمراں جماعت کی طرف سے پیش کردہ بل کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتا ۔ اس سے کسی موضوع پر آزادانہ بحث اور اختلاف رائے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔‘‘
مودی کی جیت کی خوشیاں
بھارتی انتخابات کئی معنوں میں تاریخی رہے۔ ان میں ریکارڈ ووٹنگ ہوئی اور جو نتائج سامنے آئے ہیں انہوں نے بھی کئی برسوں کے ریکارڈ توڑے۔ گزشتہ 30 برسوں میں پہلی بار کسی ایک جماعت کو اس قدر واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters
مودی کا بھارت
بھارت بھر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی جیت کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق 543 نشستوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔
تصویر: Reuters
دہلی میں آمد
جیت کے بعد ہفتے کے روز نریندر مودی کا نئی دہلی میں پرجوش استقبال کیا گیا ہے۔ اس جیت کی ریلی کے دوران پارٹی کے حامیوں سے سڑکیں بھری ہوئی تھیں۔
تصویر: Reuters
جیت کے لڈو
ممبئی میں بی جے پی کے مسلم کارکن مٹھائی بانٹ کر پارٹی کی جیت کا جشن مناتے ہوئے۔ مبصرین کی رائے میں گجرات کے فسادات کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مودی کے مخالف تھی۔
تصویر: UNI
جشن اور پٹاخے
بی جے پی کی تاریخی جیت کا جشن مناتے ہوئے کارکنوں نے آتش بازی کا بھی مظاہرہ کیا۔ چنئی میں لی گئی اس تصویر میں کارکن پٹاخوں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے۔
تصویر: UNI
بنارس میں جیت
بنارس میں ڈھول بجا تے ہوئے بی جے پی کی جیت کے جشن میں ڈوبے کارکن۔ بی جے پی کے رہنما نریندر مودی یہاں سے بھی الیکشن جیتے ہیں۔ مودی کی جماعت نے ریاست اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کو نہ صرف ہرایا ہےبلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہاں سے تو اس پارٹی کا تقریباﹰ خاتمہ ہی ہو گیا ہے۔
تصویر: UNI
صدر دفتر میں گانے
نئی دہلی میں بی جے پی کے صدر دفتر کے باہر ناچتے اور گاتے ہوئے کارکن۔ پارٹی کے صدر دفتر میں جمعہ کی صبح سے ہی کارکنوں نے جشن منانے کا آغاز کر دیا تھا۔
تصویر: UNI
بِہار میں بَہار
ریاست بِہار کے دارالحکومت پٹنہ میں بھی بی جے پی کے کارکنوں نے ’مودی بَہار‘ کا جشن منایا۔ ریاست بِہار میں بھی این ڈی اے نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تصویر: UNI
جیت کی ہولی
ویسے تو بھارت میں ہولی ایک مذہبی تہوار ہے لیکن اتر پردیش کے درالحکومت لکھنوء میں لوگوں نے جیت کی ہولی منائی۔ قوم پرست نریندر مودی کو ہندو مذہبی حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
تصویر: UNI
ملک بھر میں مودی لہر
مودی پوری طرح حکومتی اتحاد (یو پی اے) کو مات دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کو ریکارڈ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں اور انہیں حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ گوہاٹی میں پارٹی کے کارکن نتائج کے بعد جشن مناتے ہوئے۔
تصویر: Reuters
اسٹاک مارکیٹ میں دھوم
بھارتی اسٹاک مارکیٹ میں جمعہ کو تیز ی کے ساتھ اضافہ نوٹ کیا گیا۔ لوگوں کو امید ہے کہ نئی حکومت معیشت کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگی۔ مودی کی جیت کا اثر روپے کی قدر پر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ جمعہ کو بھارتی روپے کی قدر مستحکم رہی۔
تصویر: Getty Images/Afp/Punit Paranjpe
10 تصاویر1 | 10
ٹینا رے مزید کہتی ہیں’’بھارت کے انسداد دل بدلی قانون نے پارلیمانی جمہوریت میں غلطیوں اور خامیوں کو روکنے کے نظام کو کمز ور کیا ہے۔ گوکہ اصولی طورپر منتخب رکن اپنے حلقہ انتخاب کے رائے دہندگان کے تئیں جواب دہ ہوتا ہے لیکن عام طورپر ایسا نہیں ہوتا۔ اس قانون کی وجہ سے اسے اپنی پارٹی کے حکم ماننا پڑتا ہے۔ اس سے منتخب رکن اور اسے منتخب کرنے والوں کے درمیان کا تعلق کمزور ہوجاتا ہے۔‘‘
'آیا رام گیا رام‘
بھارت میں ذاتی مفادات کے لیے سیاسی وابستگی تبدیل کرنے کا سلسلہ کافی پرانا ہے ۔ سن 1967میں ہریانہ کی ریاستی اسمبلی میں گیا لال نام کے ایک رکن ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک ہی دن کے اندر دو پارٹیاں تبدیل کیں اور پندرہ دنوں کے اندر تیسری پارٹی میں چلے گئے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا کہ وہ حکمراں جماعت کا حصہ بننا چاہتے تھے۔
گوکہ وہ عارضی طورپر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تاہم بدنامی کی شکل میں اس کی بھاری قیمت انہیں ادا کرنی پڑی ۔ وفاداری تبدیلی کا نام ان سے وابستہ ہوگیا اور بھارت میں ایک نیا سیاسی محاورہ ’آیا رام گیا رام‘ بن گیا، جسے پیسہ یا وزارت یا کسی عہدہ کے خاطر سیاسی جماعت تبدیل کرنے والوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
دریں اثنا اپوزیشن کانگریس نے عام انتخابات 2019ء کے لیے پیش کردہ اپنے انتخابی منشور میں سیاسی وابستگی تبدیلی کے قانون کو سخت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
بھارت میں عام انتخابات
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں سات اپریل سے 12 مئی تک عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ اس موقع پر آٹھ سو ملین سے زائد ووٹروں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا بھی آسان کام نہیں ہو گا۔
تصویر: DW/A. Chatterjee
چوٹی کا امیدوار
حالیہ عوامی جائزوں کے مطابق وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نریندر مودی پسندیدہ ترین امیدوار ہیں جو ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ ماضی میں مغربی دنیا کے ان کے ساتھ تعلقات کوئی زیادہ اچھے نہیں رہے کیونکہ اُن پر گجرات میں مسلمانوں کے خلاف منظم قتل عام کی ذمہ داری کا الزام بھی عائد ہے۔ اب امریکا اوریورپی یونین اس ہندو سیاستدان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters
گریزاں لیڈر
ایک طویل عرصے تک کانگریس پارٹی کی صدر رہنے والی سونیا گاندھی نے اپنی پارٹی کی قیادت اپنے بیٹے راہول گاندھی کے حوالے کر رکھی ہے۔ راہول بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے پڑپوتے اور اندرا گاندھی کے پوتے ہیں۔ دس برس پہلے سیاست میں قدم رکھنے والے راہول کوئی بھی بڑا عہدہ لینے کے خواہشمند نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بدعنوانی کے خلاف لڑنے والا
عام آدمی پارٹی (AAP) کے سربراہ اروند کیجریوال نے کرپشن کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں متاثر کن جیت کے بعد وہ نئی دہلی کی حکومت کے سربراہ بن گئے تھے تاہم انہوں نے 49 دنوں بعد ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس رہنما نے بنارس میں ہندو قوم پرست نریندر مودی کو چیلنج کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کِنگ میکر
چار دائیں بازو اور سات علاقائی جماعتوں نے اتحاد کرتے ہوئے ایک ’تیسرے محاذ‘ کی بنیاد رکھی ہے تاکہ مضبوط کانگریس جماعت اور ہندو قوم پرست بی جے پی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ بھارتی لوک سبھا (ایوان زیریں) میں یہ تیسرا بڑا گروپ ہے اور کسی بھی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تصویر: Sajjad HussainAFP/Getty Images
سوشل میڈیا کا کردار
ان انتخابات سے پہلے کبھی بھی بھارتی الیکشن میں سوشل میڈیا کا کردار اتنا اہم نہیں رہا۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر انتخابی مہم کو دلچسپ بنائے ہوئے ہے۔
کمپیوٹر کے ذریعے ووٹنگ
پانچ ہفتوں پر محیط ووٹنگ کے مراحل میں بھارتی ووٹر لوک سبھا کے 545 اراکین کا انتخاب کریں گے۔ بھارت میں 1998ء سے الیکڑانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ انتخابی عمل کو تیز تر بنایا جا سکے۔ آئندہ انتخابات کے نتائج کا اعلان سولہ مئی کو کیا جائے گا۔
تصویر: AP
اقلیتوں کا اہم کردار
بھارت میں اکژیت ہندوؤں کی ہے لیکن یہاں آبادی کا تقریباً تیرہ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان ووٹر پارلیمان کی پانچ فیصد سے زائد نشستوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ کانگریس پارٹی اپنے روایتی سیکولر پروگرام کے ساتھ مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے جبکہ مودی کی بھی کوشش ہے کہ وہ اپنے مسلم مخالف ہونے کے تاثر کو دور کریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’نامو‘ کی لہر
نریندر مودی کو ’نامو‘ کے نام سے بھی پکارا جا رہا ہے۔ یہ نام ہندو دیوتاؤں کی پوجا کے دوران بھی لیتے ہیں۔ مذہب کے علاوہ مودی نے ساری دنیا کے سرمایہ کاروں کو ملک میں لانے کا نعرہ پیش کیا ہے۔ نہ صرف مذہبی بلکہ تجارتی حلقے بھی مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔
تصویر: Sam Panthaky/AFP/Getty Images
عوام کی نمائندگی
عام طور پر بھارتی اراکین پارلیمان کو پانچ سالہ مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ پارلیمان کے ایوان بالا کو راجیہ سبھا اور ایوان زیریں کو لوک سبھا کہتے ہیں۔ ایوان زیریں میں جس جماعت یا اتحاد کو اکثریت حاصل ہو گی، آئندہ وزیراعظم بھی اسی کا ہوگا۔