بھارت: مسلمان پھل فروشوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل
7 اپریل 2022مسلمانوں کے خلاف ہندو شدت پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی منافرت اور اشتعال انگیزی کی تازہ ترین کڑی کے تحت جنوبی ریاست کرناٹک میں ہندو شدت پسند تنظیموں نے ہندوؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلمان پھل فروشوں سے خریداری نہ کریں تاکہ پھلوں کے کاروبار پر مسلمانوں کی مبینہ ''اجارہ داری ختم ہوسکے۔‘‘
ہندو جاگرتی سمیتی کے کوارڈینیٹر چندرو موگر نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ صرف ہندو دکانداروں سے ہی پھل خریدیں۔ موگر نے مسلمانوں پر ''تھوک جہاد‘‘ کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا،''پھل کی تجارت پر مسلمانوں کی اجارہ داری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پھل اور بریڈ فروخت کرنے سے پہلے وہ اس پر تھوک دیتے ہیں۔ مسلمان تاجرتھوک جہاد کررہے ہیں۔‘‘
ایک دیگر شدت پسند ہندو رہنما پارس ناتھ سمبارگی نے بھی مسلم پھل فروشوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا،''ہندو کسانوں کی سخت محنت کا فائدہ مسلم تاجر اٹھارہے ہیں۔ ہندو کسان ایک مخصوص گروپ کے رحم و کرم پر ہیں۔‘‘
ہندو شدت پسند تنظیم رام سینانے بھی ہندوؤں سے مسلم پھل فروشوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔ رام سینا کا الزام ہے کہ مسلم تاجر ہندو کسانوں سے سستے داموں پر پھل خریدنے کے لیے کئی طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔
رام سینا ویلنٹائن ڈے کی مخالفت اور سن 2009 میں منگلور میں ایک پب میں اپنے خاندان کے ساتھ آنے والی خواتین پر حملہ کردینے کے واقعے کے بعد سرخیوں میں آئی تھی۔
بائیکاٹ کی اپیل غداری کے مترادف
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے کہا کہ ہندو شدت پسند تنظیمو ں کی جانب سے مسلم پھل فروشوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل مسلمانوں کو اچھوت بنانے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کرناٹک کی بی جے پی حکومت کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت نے 'ہجوم کی دیدہ دلیری' کے قانون کو تسلیم کرلیا ہے اورغریب عوام کی روزی روٹی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
کرناٹک کے سابق وزیر اعلٰی ایچ ڈی کماراسوامی نے بائیکاٹ کی اپیل کو ملک سے غداری قراردیا۔ انہوں نے کہا،''مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل بھارت سے اور کسانوں سے 'غداری‘ کے مترادف ہے۔ ایسی اپیل کرنے والے قوم دشمن اور کسان دشمن ہیں۔ مسلمان تاجر ہندو کاشت کاروں سے پھل خرید کر ان کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
حکومت کیا کہتی ہے؟
ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر مسائل کو بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں۔
کرناٹک کے وزیر تعلیم اشواتھ نارائن نے کہا کہ ان کی حکومت اس کے یکسر خلاف ہے۔ ''ہم ان کی ذمہ داری نہیں لیتے اور نہ ہی ہماری پارٹی اس کی ذمہ دار ہے۔ ایک حکومت کے طور پر ہمارے سامنے یہ بالکل واضح ہے کہ ہم دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والے کسی بھی بھارتی شہری یا اپنے بھائیوں کے خلاف نہیں ہیں۔‘‘
بی جے پی رہنما کاکہنا تھا،''صدیوں اور دہائیوں سے بننے والے رشتوں میں نفرت کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ہمارے درمیان اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات کرکے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ریاست میں پھلوں کی کاشت کرنے والوں کی تنظیم نے بھی بائیکاٹ کے اپیل کی مخالفت کی ہے۔
اس سے قبل ہندو تہوار اوگاڑی کے موقع پر حلال گوشت کا بائیکاٹ کی اپیل کا کوئی قابل ذکر اثر نہیں ہوا تھا۔ کرناٹک بھر میں مسلم گوشت کی دکانوں پر ہندو خریدار بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اوگاڑی کے موقع پر ہندو گوشت کھاکر سال نو کا جشن مناتے ہیں۔