شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش؟
آسیہ مغل
31 مئی 2021
متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019 کے ضابطے حالانکہ ابھی زیر غور ہیں۔ لیکن مودی حکومت نے پانچ ریاستی حکومتوں کو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Sarkar
اشتہار
بھارت میں مودی حکومت نے ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرکے پانچ ریاستوں گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے مجموعی طور پر تیرہ اضلاع کے حکام کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری کے افراد کی جانب سے شہریت کی درخواستوں کو موجودہ ضابطوں کے تحت ہی موصول، تصدیق اور منظور کریں۔
بھارتی وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 کے ضابطے ابھی وضع نہیں ہو سکے ہیں اس لیے اس نوٹیفیکیشن کو سی اے اے 2019 کے بجائے شہریت قانون 1955ء اور شہریت ضابطے 2009 ء کے تحت جاری کیا گیا ہے۔
اس نوٹیفیکیشن کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت کے پیروکاروں، جینیوں اور مسیحیوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے اور اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ درخواستیں آن لائن طلب کی گئی ہیں۔
تصویر: DW/M. Javed
اپوزیشن کا الزام
اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والی اقلیتی برادری کے لوگوں کو شہریت دینے کا یہ معاملہ مودی حکومت کے ”فسطائی کردار" کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے مودی حکومت پر 'چور دروازے سے‘ سی اے اے 2019 نافذ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
اشتہار
مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”یہ شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ ابھی تک تو سی اے اے کے آئینی جواز کے حوالے سے عدالت میں دائر عرضیوں پر سماعت ہی شروع نہیں ہوئی ہے اور مرکزی حکومت نے سی اے اے 2019کے ضابطے بھی وضع نہیں کیے ہیں۔"
سیتا رام یچوری کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت نے جس طرح نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس پر سپریم کورٹ کو فوراً کارروائی کرنی چاہیے اور متنازعہ قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش کو روک دینا چاہیے۔
بھارت میں پاکستانی ہندوؤں نے نئی شہریت بل کا خیرمقدم کر دیا
03:07
This browser does not support the video element.
بائیں بازو کے ایک اور رہنما سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجا کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب مظاہروں پر پابندی عائد کیے جانے سے قبل تک متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے اور بعض مقامات پر حکومت نے ان مظاہروں کو انتہائی 'بے دردی‘ کے ساتھ کچل دیا تھا، ”شہریت دینے کے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرنے کے حکومت کے فیصلے سے اس کی بے حسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسے وقت بھی گریز نہیں کر رہی ہے جب کورونا وبا کی وجہ سے ہر روز ہزاروں افراد مر رہے ہیں۔ اس سے حکومت کی بے حسی، عوام دشمنی اور جمہوریت مخالف رویے کا پتہ چلتا ہے۔"
سی پی آئی ایم ایل کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے ایک ٹوئٹ کر کے سوال کیا کہ ابھی جبکہ سی اے اے کے ضابطے ہی وضع نہیں کیے جا سکے ہیں اس طرح کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔انہوں نے طنز کرتے ہو ئے کہا،”الیکشن ریلیو ں میں بی جے پی کے رہنما شہریت اسی طرح 'تقسیم‘ کر رہے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہر بھارتی شہری کے بینک کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ پناہ گزینوں سے درخواست دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ یعنی اب آپ پناہ گزین بن گئے۔ لیکن کیا سی اے اے کے ضابطے نافذ ہو گئے ہیں؟"
شہریت ترمیمی بل پر اعتراض کیا ہے؟
03:18
This browser does not support the video element.
’جانبدارانہ قانون‘
بھارتی پارلیمان نے دسمبر 2019ء میں شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی تھی، جس کے تحت یکم جنوری 2015ء سے قبل بھارت میں موجود پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو، جین، سکھ، پارسی، مسیحی اور بودھوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اس قانون کی سخت نکتہ چینی ہوئی تھی اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔
شاہین باغ کی دادی: 100 انتہائی بااثرعالمی شخصیات میں شامل
ٹائم میگزین کی ’2020 کی انتہائی بااثر شخصیات‘ میں 82 سالہ بلقیس بانو بھی شامل ہیں۔ بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ’شاہین باغ کی دادیوں‘ کی ہمت اورعزم نے عوامی تحریک کی ایک نئی سوچ عطا کی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
تو شاہیں ہے...
بلقیس بانو’شاہین باغ کی دادی‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ حالانکہ وہ اترپردیش کے بلند شہر ضلع کی رہنے والی ہیں اور ان کے شوہر کی تقریباً دس برس پہلے چل بسے تھے۔ جو کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔ بلقیس ان دنوں دہلی میں اپنے بہو بیٹو ں کے ساتھ رہتی ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
مزاحمت کی علامت
بلقیس بانو مزاحمت کی علامت بن گئی تھیں۔ وہ سخت سردی اور زبردست بارش کے باوجود 100 دنوں سے زائد چلنے والے اس پرامن مظاہرے میں مستقل ڈٹی رہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین کے لیے مثال
بلقیس بانو کہتی ہیں کہ وہ کئی مرتبہ صبح آٹھ بجے سے رات 12بجے تک مظاہرے میں شامل رہتی تھیں۔ ان کے ساتھ ہزاروں خواتین وہاں موجود ہوتی تھیں۔
تصویر: Mohsin Javed
منفرد تحریک
خواتین کی اس منفرد تحریک سے حوصلہ پاکر بھارت کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں خواتین نے مظاہرے شروع کردیے تھے۔اسے ’مزاحمت کی علامت‘ قرار دیا گیا۔ شاہین باغ کے مظاہرے نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔
تصویر: Mohsin Javed
باہمت
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب کہا کہ وہ متنازعہ سی اے اے قانون سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے تو بلقیس بانو کا جواب تھا’اگر وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے تو ہم ایک بال برابر بھی پیچھے نہیں ہٹنے والے۔“
تصویر: Mohsin Javed
جب انگریزوں کو نکال دیا تو...
بلقیس بانو نے مظاہرے کے دوران ایک بار کہا تھا’وہ ہمیں غدار کہتے ہیں۔ جب ہم انگریزوں کو ملک سے باہر نکال چکے ہیں تو نریندر مود ی اور امیت شاہ کون ہیں؟ آپ سی اے اے اور این آر سی ہٹالیں، تو ہم ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر دھرنا ختم کردیں گے۔“
تصویر: Mohsin Javed
آئیکون
ٹائم میگزین نے بلقیس بانو کو ’آئیکون‘ کی فہرست میں جگہ دیتے ہوئے لکھا ہے”بلقیس نے آمریت کی طرف پھسلتے جارہے ملک میں، سچ بولنے کی وجہ سے جیلوں میں ڈالے جانے والے کارکنوں اور طلبہ لیڈروں کو امید اور طاقت دی اور ملک بھر کی عورتوں کوشاہین باغ جیسا پرامن مظاہرہ کرنے کا حوصلہ بخشا۔“
تصویر: Mohsin Javed
جھوٹے الزامات
پرامن مظاہرہ کرنے والی ان خواتین کو اس بات سے مایوسی بھی ہوئی کہ بھارتی پارلیمان گوکہ شاہین باغ سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ ان کی بات سننے کے لیے نہیں آیا البتہ ان پر انتہائی گھٹیا اور جھوٹے الزامات ضرور لگائے۔
تصویر: Mohsin Javed
عملی تحریک
شاہین باغ ایک اس لحاظ سے بھی ایک منفرد تحریک تھی کہ لوگوں نے عملی تحریک کے ساتھ ساتھ علمی معلومات بھی حاصل کی۔ سڑک کے کنارے ایک عارضی لائبریری بنائی گئی تھی اور بچوں کے لیے ایک خیمے میں اسکول۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم سب ساتھ ہیں
شاہین باغ تحریک ایک کل مذہبی عوامی تحریک تھی۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب نے اپنی صلاحیت اور اپنی بساط کے مطابق اس میں اپنا تعاون ادا کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم شرمندہ نہیں ہونا چاہتے
ما ئیں اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر اس مظاہرے میں شامل رہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتے۔
تصویر: Mohsin Javed
نریندر مودی بھی شامل
ٹائم میگزین کی اس فہرست میں وزیر اعظم نریندرمودی کا نام بھی شامل ہے۔ میگزین نے اس حوالے سے لکھا ہے ” نریندر مودی کے عروج کے بعد بھارتی جمہوریت کی تکثیریت حملے کی زد میں ہے۔ خاص طورپر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا گیا اور دنیا کی سب سے متحرک جمہوریت گہری تاریکی میں گر گئی ہے۔“
تصویر: Mohsin Javed
متنازعہ قانون
متنازعہ شہریت ترمیمی قانون میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ستائے جانے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی مذہبی اقلیتوں کو بھارت آنے پر شہریت دینے کی گنجائش ہے لیکن مسلمانوں کو اس کے اہل نہیں ہوں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
نئی نسل کے لیے مثال
شاہین باغ کی تحریک نے مستقبل کی نسل کو بھی عوامی تحریک کی اہمیت اور افادیت سے عملی طور پر آگاہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
تکثیریت کا خاتمہ
ٹائم میگزین نے لکھا ہے سات دہائیوں سے بھارت دنیا کا سب سے عظیم جمہوری ملک ہے۔ اس کی 130کروڑ آبادی میں ہندو، مسلم، سکھ عیسائی، بودھ، جین او ر دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔ لیکن اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت نے بھارت میں تکثیریت کو ختم کردیا ہے۔
تحریر: جاوید اختر، نئی دہلی