بھارت میں جہاں تقریباً گونگی اپوزیشن کو ایک آواز مل رہی تھی اور حکومت کے احتساب کا دور دوبارہ شروع ہو رہا ہے، مگر یہ راحت ابھی تک صحافیوں کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ گزشتہ سال ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کووڈ پر قدغن لگانے کے لیے عائد پابندیاں ختم کردیں، جس کے نتیجے میں زندگی کے معمولات بحال ہوگئے، مگر بھارت میں پارلیمنٹ کور کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ پابندیاں ابھی بھی برقرار ہیں۔
ہر نیوز چینل کے صحافیوں کا کوٹہ وبائی امراض کے دوران آدھے سے بھی کم کر دیا گیا تھا۔ تمام پاس جو 2020ء میں معطل کر دیے گئے تھے، بدستور اب بھی معطل ہیں۔ سینیئر صحافی جنہیں لوک سبھا کی جانب سے لانگ اور ڈسٹنگوشڈ قرار دیے جانے والے سینیئر صحافیوں کے اب بھی پارلیمنٹ میں داخلے پر پابندی ہے۔
پارلیمنٹ کے گلیارے جو سیشن کے دوران صحافیوں سے بھرے پڑے ہوتے تھے، اب سونے سونے لگتے ہیں۔ چند اکا دکا صحافیوں کو ہی رسائی حاصل ہے، جن میں چند ایجنسیوں کے نمائندے اور حکومتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کی سکیورٹی ایک مخصوص تربیت یافتہ ادارے پارلیمنٹ سیکورٹی سروس کے پاس ہوتی تھی، جو پروٹوکول اور دیگر امور سے واقف ہوتے تھے۔ وہ اراکین پارلیمان اور صحافیوں کو پہچانتے تھے۔ اس بار ان سے یہ ذمہ داری چھین کر سینٹرل انڈسٹریل سکیورٹی فورس کے حوالے کی گئی ہے۔ یہ فورس ایئرپورٹ، انڈسٹریل کمپلیکس وغیرہ کی سیکورٹی فراہم کرتی ہے۔
ابھی حال میں تو حد ہوگئی کہ حکم شاہی آگیا کہ پریس گیلری میں ایک سے زیادہ قلم لے کر نہ جائیں۔ پہلے تو نوٹ پیڈ لے جانے پر بھی ممانعت کی گئی۔ مگر بعد میں کچھ چیخ و پکار کے بعد ایک نوٹ پیڈ لے جانے کی اجازت مل گئی۔ 2001ء میں جب پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، اس وقت بھی اس طرح کی پابندیاں نہیں لگائی گئی تھیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے۔ میڈیا گیلری کے اندر پہلی قطار پر سکیورٹی فورسز نے قبضہ کیا ہے۔ صحافی نہ ہوا، کوئی دہشت گرد ہوا، جس پر ہمہ وقت نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ گیلری سے نیچے جھانکے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صحافیوں کو ایک خوف و ہراس کی فضا میں کام کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
پارلیمنٹ کی پرانی گول عمارت میں صحافیوں اور اراکین کے درمیان ملنے ملانے کے کئی مواقع ہوتے تھے۔ پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال سمیت دیگر جگہوں یعنی ریڈنگ روم وغیرہ میں آف ریکارڈ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ نئی پارلیمنٹ بلڈنگ کا نقشہ کچھ اسی طرح بنایا گیا ہے کہ صحافیوں اور اراکین پارلیمان کے درمیان کہیں کوئی رابط نہ ہونے پائے۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور پریس کلب آف انڈیا سمیت کئی پریس باڈیز نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے سربراہوں سے گزارش کی کہ صحافیوں پر عائد کووڈ پابندیوں کو ہٹایا جائے۔ پریس کلب آف انڈیا کے صدر گوتم لہڑی کا کہنا ہے کہ یہ پریس سینسر شپ ایمرجنسی کے دنوں سے بھی بدتر ہے۔ ان دنوں میڈیا کو سینسر کیا گیا مگر اس کو کام کرنے سے نہیں روکا گیا۔ اب تو کام ہی نہیں کرنے دیا جاتا ہے۔ نیوز سورسز تک رسائی بند کر دی گئی ہے۔
صحافیوں کو اب صرف ایک ہی امید ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں جنہیں اپنی آواز مل گئی ہے وہ اب پارلیمنٹ کے اندر پریس کے تحفظات کو اٹھائیں گی اور انہیں آزادانہ رپورٹنگ کرنے کا حق دلائیں گی۔ پارلیمنٹ اور صحافیوں کا تو چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ساتھ پچھلے دس سالوں میں تار تار ہو گیا ہے، اس کو پھر سے جوڑنے کی ضروت ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔