1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی شخصیات اور اداروں کی عمر خالد کو رہا کرنے کی اپیل

صلاح الدین زین
4 جولائی 2022

مشہور اسکالر نوم چومسکی اور مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی سمیت چار بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اسکالر اور کارکن عمر خالد کو ایک طویل عرصے سے قید میں رکھنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

Indien Umar Khalid und Anirban Bhattacharya
تصویر: Getty Images/AFP

ہندوز فار ہیومن رائٹس، انڈین امریکن مسلم کونسل، دلت یکجہتی فورم، اور انڈیا سول واچ انٹرنیشنل جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے معروف کارکن اور اسکالر عمر خالد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دہلی پولیس نے عمر خالد کو 14 ستمبر سن 2020 میں گرفتار کیا تھا تب سے وہ جیل میں ہیں اور انہیں ضمانت تک نہیں ملی ہے۔ 

 نوبل انعام یافتہ اسکالر نوم چومسکی اور مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے بھی عمر خالد کو اس طرح سے اتنی لمبی مدت تک جیل میں رکھنے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔

اپیل میں کیا کہا گیا ہے؟

نوم چومسکی نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عمر خالد کا کیس، ’’ان بہت سے کیسز میں سے ایک ہے جس نے جبر اور اکثر اوقات تشدد کے ماحول میں بھارت کے نظام عدل پر سنگین نوعیت کے ایسے سوال کھڑے کیے ہیں، جو آزاد اداروں اور شہریوں کے حقوق کے آزادانہ عمل کو واضح طور پر کمزور کر رہے ہیں۔ یہ بھارت کی سیکولر جمہوریت کی باوقار روایت کو ختم کرنے اور ہندو نسل پرستی کو مسلط کرنے کی بڑے پیمانے پر حکومتی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔‘‘

نوم چومسکی نے مزید کہا کہ عمر خالد کے بارے میں اب تک جو، ’’واحد معتبر ثبوت پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بولنے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال کر رہے تھے، جو ایک آزاد معاشرے میں شہری کا ایک بنیادی حق ہے۔‘‘

 مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی الینوائے یونیورسٹی میں ریسرچ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بھی چومسکی کی طرح ایک ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے اسکالر اور کارکن عمر خالد کی عالمی صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے کہا،’’ خالد بھارتی ثقافت کی بہترین خصوصیات کے حامل ہیں۔ ایک ذہین اور ایک حساس ضمیر سے تقویت یافتہ ۔۔۔۔ بھارت  کے اس شاندار نوجوان بیٹے کو مسلسل 20 مہینوں سے خاموش کرا دیا گیا ہے۔‘‘

مسٹر گاندھی نے کہا کہ خالد کی یہ،’’مسلسل خاموشی عالمی سطح پر بھارت کی شبیہہ پر ایک بد نما داغ  ہے، اور ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا،’’ہم سب جانتے ہیں کہ آج عالمی سطح پر بالادستی اور مساوات کے درمیان ایک کشمکش چل رہی ہے، جو آمریت اور جمہوریت کے درمیان کے ساتھ ہی جبر اور انسانی وقار کے درمیان بھی جاری ہے۔ بھارت تو اس جدوجہد کے مرکز میں ہے۔ عمر اور غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے دیگر تمام لوگوں کی، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، ہر ایک اضافی دن کی حراست عالمی جمہوریت، انسانی وقار اور بھارت کی نیک نامی کے خلاف ہر دم لگنے والا ایک  تازہ دھبہ ہے۔‘‘

بین الاقوامی تنظیموں سمیت بھارت بھی حقوق کی کئی تنظیمیں ان کی اس طویل گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

عمر خالد کا کیس

بھارت کی موجودہ ہندو قوم پرست حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون منظور کیا تھا اس کے خلاف ہونے والے احتجاج میں عمر خالد بھی پیش پیش تھے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کے علاوہ پڑوسی ممالک کے تمام دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے۔

لیکن دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ عمر خالد شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی سازش میں ملوث ہیں۔ ان مسلم کش فسادات میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں بیشتر مسلمان تھے۔ دہلی پولیس نے ان مسلم کش فسادات کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

بہت سی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے وکلا ان کی ضمانت کی کوششیں کرتے رہے ہیں تاہم، پہلے عدالت اس کی سماعت میں تاخیر کرتی رہی اور پھر گزشتہ مارچ میں کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

اب ان کی ضمانت کی درخواست دہلی ہائی کورٹ میں ہے۔ اس میں بھی کئی سماعتیں ہو چکی  ہیں تاہم ضمانت دینے کی بجائے عدالت اکثر ان کے خلاف اپنے ریمارکس دیتی رہتی ہے، جو میڈیا کی سرخیاں بنتی ہیں۔    

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی جنگ

02:30

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں