1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پھر تنازعے سے دوچار

جاوید اختر، نئی دہلی
14 فروری 2019

جنوبی ایشیاء کی معروف اور برصغیر پاک و بھارت کو متعدد اہم رہنما دینے والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک بار پھر تنازعے سے دوچار ہے۔ یونیورسٹی کے چودہ طالب علموں پر غداری کے الزام اور آٹھ کی معطّلی کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔

Indien Uttar Pradesh - Aligarh Muslim University
تصویر: DW/S. Mishra

حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اطراف میں اضافی سکیورٹی دستے تعینات کردیے گئے ہیں جب کہ علی گڑھ شہر میں موبائل انٹرنیٹ کی سہولت بھی معطّل کردی گئی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت پیش آیا جب حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوتھ ونگ بھارتیہ جنتا یووا مورچہ کے ایک رہنما نے پولیس میں شکایت درج کرائی کہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ان کی گاڑی پر حملہ کیا اور بھارت مخالف اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔

تاہم تا زہ ترین اطلاعات کے مطابق پولیس نے ملک سے غداری کا الزام مسترد کردیا ہے۔ اترپردیش کی پولیس نے آج ایک بیان جاری کر کے کہا کہ واقعہ کی ویڈیو جو ثبوت کے طور پر  پیش کی گئی ہے اسے دیکھنے کے بعد بادی النظر میں الزام درست نظر نہیں آتا ہے۔ اس لیے طلبہ کے خلاف غداری کا معاملہ ختم کیا جارہا ہے۔ طلبہ پر اس کے علاوہ بھی کئی دیگر مقدمات درج کرائے گئے ہیں، جن میں اقدام قتل کا مقدمہ بھی شامل ہے۔

یہ واقعہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا ہے۔ اترپردیش کی سابق وزیر اعلی مایاوتی نے پولیس کارروائی کو ’ریاستی دہشت گردی‘ قرار دیا جب کہ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کیا ’یہ سب حسب توقع ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اے ایم یو سے جے این یو (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) تک طلبہ کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے۔کیا اس لیے کہ وہ تخریبی سیاست کا آلہ کار بننے کے لیے تیار نہیں ؟‘‘

اسی دوران یونیورسٹی میں ایک دوسرے واقعہ میں ایک پرائیوٹ نیوز چینل نے اپنی رپورٹر اور کیمرہ مین کے ساتھ طلبہ کے ذریعہ بدسلوکی کا رپورٹ درج کرائی ہے۔ طلبہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ ٹی وی چینل اجازت کے بغیر ہی یونیورسٹی احاطے میں فلم بندی کر رہا تھا۔ اس معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ نے بعد میں آٹھ طلبہ کو معطل کردیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) تقسیم ملک کے بعد سے ہی تنازعے اور ہنگامہ سے دوچار رہا ہے۔گزشتہ ہفتہ بی جے پی کی اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے یونیورسٹی کے اندر ایک مندر تعمیر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وائس چانسلر کو میمورنڈم دیا اور دھمکی دی ہے کہ اگر پندرہ دنوں کے اندر اس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا تو وہ کیمپس میں داخل ہوکر مورتی نصب کردیں گے۔

دو روز قبل ہی بھارتی سپریم کورٹ نے علی گڑھ یونیورسٹی( اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ کو واپس لینے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے دائر عارضی ایک آئینی بنچ کو سونپی ہے۔ مودی حکومت نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ اے ایم یوکو اقلیتی ادارہ کے زمرہ میں نہیں رکھا جانا چاہیے۔ خیال رہے کہ بھارت میں اقلیتی درجہ والے تعلیمی اداروں کو داخلہ میں اقلیتوں کو ریزرویشن سمیت کئی دیگر اختیارات حاصل ہیں۔

گزشتہ ماہ علی گڑھ سے بی جے پی کے رکن پارلیمان ستیش گوتم نے یونیورسٹی سے مسلم کا لفظ ہٹانے کا مطالبہ کیاتھا۔ گوکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقہ وارانسی میں واقع بنارس ہندو یونیورسٹی بھی ہے تاہم ستیش گوتم کی دلیل ہے کہ ہندو لفظ ’نرم‘ ہے اور اس سے ایک جذبہ بھی وابستہ ہے جب کہ مسلم لفظ سننے میں مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اس سے قبل پچھلے سال اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے دوران بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں موجودگی پر بی جے پی نے زبردست ہنگامہ کیا تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہنگامہ کے نذر کرنے کی کوشش کے خلاف آج جمعرات کو دہلی میں متعدد طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مظاہرہ کیا۔ مظاہرہ کے منتظم یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے سربراہ ندیم خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ملک سے غداری کا مقدمہ اب مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ جب کیمپس میں کوئی نعرے بازی ہوئی ہی نہیں تو ان طلبہ پر یہ مقدمہ کیوں؟‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’کسی حکومت کے خلاف نعرے بازی کو ملک سے غداری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور کسی پر غداری کا الزام لگا کر جمہوریت کی آواز کو کچلا نہیں جا سکتا۔ موجودہ حکومت کے خلاف نعرے بازی کو ملک کے خلاف نعرے بازی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘

خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی 2016 ء میں دہلی کی معروف جواہرلا ل نہرو یونیورسٹی میں طلبہ پر بھارت مخالف اور پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کا الزام لگاتے ہوئے کئی طلبہ کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ تاہم یہ الزام آج تک ثابت نہیں ہوسکا ہے۔

1875ء میں سرسید احمد خان کے ذریعہ قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے برصغیر میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری پیداکرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت کی متعدد اہم شخصیات کے علاوہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، صدر فضل اہی چودھری، ایوب خان، گورنر جنرل ملک غلام محمد اور خان عبدالغفار خان جیسی شخصیات کی یہ مادر علمی رہی ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں بالخصوص دائیں بازو کی جماعتیں اس یونیورسٹی کے خلاف اکثر متنازعہ معاملات اٹھاتی رہی ہیں۔

تصویر: Reuters/A. Mukherjee
تصویر: imago/Indiapicture
تصویر: CC BY-NC-SA 2.0/FullyFunctnlPhil

گائے نے بھارتی معاشرے کو تقسیم کر دیا

03:24

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں