بھارت: علی گڑھ کا نام تبدیل کرنے کی کارروائی شروع
19 اگست 2021بھارتی ریاست اتر پردیش کے تاریخی ضلع علی گڑھ کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی پنچائیت نے شہر کا نام تبدیل کرنے کی ایک قرارداد منظور کی ہے اور ریاستی حکومت کو اسے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ علی گڑھ کا نام تبدیل کر کے اس کا نام ہری گڑھ کر دیا جائے۔
علی گڑھ میں مسلم برادری کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے تاہم حالیہ انتخابات کے بعد پنچائیت پر سخت گیر مؤقف کی حامل ہندو نظریاتی تنظیم بی جے پی کا کنٹرول ہے اور اس نے اتفاق رائے سے یہ قرار داد منظور کی ہے۔ ضلعی پنچائیت کے صدر وجے سنگھ نے میڈیا سے بات چیت میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، "علی گڑھ کو ہری گڑھ کرنے کی تجویز پیش کر دی گئی ہے۔"
نام کی تبدیلی کا حتمی فیصلہ ریاستی حکومت کرتی ہے اور اب یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کیا جائے یا نہیں۔ یوگی حکومت گزشتہ چند برسوں کے دوران الہ آباد، مغل سرائے اور فیض آباد جیس تاریخی شہروں کے نام بدل چکی ہے اور کوئی تعجب کی بات نہیں کہ علی گڑھ کا نام بھی بدل جائے۔
نام کی تبدیل عالمی شرمندگی کا سبب بن سکتی ہے
ہندو تنظیموں کا دعوی ہے کہ ماضی میں اس شہر کا نام ہری گڑھ تھا اور مسلمانوں نے اسے تبدیل کر کے علی گڑھ کر دیا تھا، اسی لیے وہ اس کا نام بدلنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ تاہم بیشتر مؤرخین اسے مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کا علی گڑھ کا نام پہلے کچھ اور تھا۔
مسلم اداروں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم آل انڈيا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ بی جے پی ریاستی انتخابات سے قبل، ’’حتی الامکان فرقہ پرستی اور مسلم برادری کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش میں ہے تاکہ سیاسی فائدہ حاصل کر سکے۔ بی جے پی کے پاس انتخابات کے لیے اسی طرح کے فرسودہ دعوے ہیں جو تاریخی اعتبار سے جھوٹے ہیں۔‘‘
علی گڑھ کے سابق ایم ایل اے ضمیر اللہ شاہ بھی ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ یہ سب آئندہ انتخابات کے لیے ہے، ’’بی جے پی چاہتی ہے کہ کسی بھی طرح ہندو مسلم اختلافات پیدا ہوتے رہیں، علی گڑھ کو ہری گڑھ کیا جائے تاکہ شہر کا پر امن ماحول خراب ہو سکے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس مطالبے کو عوام کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے اور علی گڑھ کوئی معمولی شہر تو ہے نہیں، ’’یہاں سے پڑھے لوگ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، جو علی گیریئن کہلاتے ہیں۔ یہ شہر سر سید کے نام اور ان کی تحریک سے معروف ہے اگر نام تبدیل کیا جاتا ہے تو بھارت کو عالمی سطح پر بھی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔‘‘
ایک سوال کے جواب نوید حامد نے کہا کہ مسلم تنظیمیں بطور احتجاج زیادہ سے زیادہ ایک خط لکھ سکتی ہیں۔ ’’وہ اور زیادہ کر بھی کیا سکتی ہیں؟ یہ ایک طویل قانونی لڑائی ہے اسے عدالت میں چلنچ کیا جائے گا۔ باقی کچھ بھی کرنا بی جے پی کے ایجنڈے پر چلنے کے مترادف ہو گا۔‘‘
ضمیر اللہ کا بھی کہنا تھا کہ اس پر مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے احتجاج یا ہنگامہ آرائی سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ’’بی جے پی تو یہی چاہتی ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکلیں ہنگامہ ہو، اسی سے تو وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘
شہر کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھارت کا معروف تعلیمی ادارہ ہے جس کا جدوجہد آزادی میں ایک اہم کرادار تھا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح اس دور میں اکثر اس یونیورسٹی میں خطاب کے لیے آتے تھے اور مورخین کے مطابق قیام پاکستان میں بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طالب علموں کا بڑا کردار تھا۔
محمد علی جناح یونیورسٹی کے تاحیات رکن تھے اور مستقل رکن کی حیثیت سے ان کی تصویر آج بھی یونیورسٹی میں آویزاں ہے۔ تاہم ہندو تنظیمیں ان کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہیں اور اس پر بھی کئی بار ہنگامہ ہو چکا ہے۔
مزید شہروں کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ
حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے سب سے با وقار کھیل ایوارڈ 'راجیو گاندھی کھیل رتن ' کا نام تبدیل کر کے اس کا نام میجر دھیان چند کھیل رتن کر دیا تھا، جس کے بعد سے، یو پی میں خاص طور پر، کئی تاریخی شہروں کے نام بدلنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے یوگی حکومت سے کہا ہے کہ شہر مراد آباد، فیروز آباد اور مین پوری کے نام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق یہ تمام نام مسلم حکمرانوں نے رکھے تھے اس لیے فیروز آباد کو چندر نگر جبکہ مین پوری کو ایک ہندو سادھو کے نام پر میان پوری کر دیا جائے۔ یہ تمام مطالبات ایسے وقت کیے جا رہے ہیں جب ریاستی انتخابات میں محض چھ ماہ کا وقت بچا ہے۔
ریاستی حکومت فیض آباد کو ایودھیا، آلہ آباد کو پریاگ راج اور مغل سرائے کا نام دین دیال اپادھیائے پہلے ہی کر چکی ہے۔ چند روز پہلے ہی کی بات ہے دہلی میں سخت گیر ہندوؤں نے بابر روڈ کے بورڈ پر بابر کے نام پر سیاہ رنگ پوت دیا تھا۔ ہندو تنظیمیں ماضی کے مسلم حکمرانوں کے نام پر لعن طعن کرتی رہتی ہیں اسی لیے بی جے پی کی حکومت نے دہلی کے معروف اورنگ زیب روڈ کا نام بھی بدل دیا تھا۔