بھارت: فوجی صلاحیت میں اضافے کے لیے اقدامات
6 فروری 2012
حالیہ عرصے میں بھارت کی تیرہ لاکھ افواج کی ترجیحات میں بڑی حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔ بھارت کی دفاعی ترجیحات کا محور اب پاکستان کے بجائے چین بن چکا ہے۔ چین نے چند برسوں کے دوران نہ صرف یہ کہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس نے اپنی فوج کو جدید تر بنانے کے لیے بڑی رقم صرف کی ہے۔ اب بھارت کی بھی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنی افواج اور عسکری صلاحیت کو چین کی سطح پر لائے۔ تاہم بعض دفاعی مبصرین کے مطابق یہ کوشش خاصی سست ہے اور یہ کہ اس کا آغاز کافی دیر سے کیا گیا ہے۔
بھارت کو ایک جانب پاکستان کی طرف سے خطرات لاحق ہیں تو دوسری جانب چین کے ساتھ بہت سے تنازعات کے حل کے باوجود ہمالیہ سے ملحق ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا متنازعہ سرحدی علاقہ بھی اس کے لیے دفاعی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔
اس کے باوجود بھارت ایک بڑی عسکری طاقت ہے۔ بھارت اسلحہ برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس دہائی کے دوران بھارت سو بلین ڈالر کا اسلحہ برآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
حال ہی میں امریکہ کی نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جیمس کلیپر نے امریکی سینیٹ کو بتایا، ’’بھارتی فوج اپنی صلاحیت میں اضافہ کر رہی ہے، جس کا مقصد چین کے ساتھ عسکری توازن قائم کرنا ہے۔‘‘
اس ’توازن‘ کے لیے بھارت امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو بھی خاصی اہیمت دیتا ہے۔ اس حوالے سے بھارت اور امریکہ کے درمیان حالیہ چند سالوں میں متعدد دفاعی اور عسکری معاہدے ہوئے ہیں۔ بھارت جوہری ہتھیار لے جانے والے اگنی پانچ میزائل کا تجربہ بھی کرنے والا ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ میزائل چین تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بھارتی حکومت کا فوجی صلاحیت میں اضافہ اور بہتری کا محور فضائیہ اور نیوی ہے، جو کہ ماضی کے مقابلے میں ایک نئی سمت ہے۔ پاکستان کے ساتھ عسکری تنازعات کے باعث ماضی میں بھارتی افواج کی زیادہ تر توجہ برّی افواج پر تھی۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ روئٹرز
ادارت: عاطف بلوچ