1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: فیس بک تنازع شدت اختیار کرتا ہوا

جاوید اختر، نئی دہلی
18 اگست 2020

بھارت میں حکمراں جماعت بی جے پی پر فیس بک کو کنٹرول کرنے کے الزامات کے حوالے سے جاری تنازعہ شدت اور نئے نئے رخ اختیار کرتا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے۔

USA Narendra Modi und Mark Zuckerberg
تصویر: picture-alliance/Zuma Press

ایک طرف فیس بک کے ذمہ داروں کو بھارتی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے سامنے طلب کرنے کے معاملے پر حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں میں ٹھن گئی ہے، دوسری طرف دہلی کی اروند کیجریوال حکومت نے بھی فیس بک کو اسمبلی میں طلب کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ امریکی کمپنی کی بھارت میں پبلک پالیسی ہیڈ آنکھی داس نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے کہ اس تنازعہ کے بعد انہیں 'اپنی زندگی کو خطرہ لاحق' ہوگیا ہے۔ ان سب کے درمیان آج منگل کے روز آنکھی داس کے خلاف مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور مذہبی منافرت بھڑکانے کا معاملہ درج ہوگیا ہے۔

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی اس رپورٹ کے بعد کہ امریکی میڈیا کمپنی فیس بک نے ہند و قوم پرست جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے 'ہیٹ اسپیچ' اورتشدد بھڑکانے والی پوسٹس کے خلاف کارروائی کرنے میں دانستہ طور پر تساہلی سے کام لیا نیز فیس بک کی انڈیا پبلک پالیسی ڈائریکٹر نے اپنے اسٹاف کو مبینہ طور پر کہا تھا کہ بی جے پی رہنماوں کے ہیٹ اسپیچ کے خلاف کارروائی کرنے سے بھارت میں کمپنی کا  کاروبار متاثر ہوگا،  انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق بھارتی پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ششی تھرور نے کہا تھاکہ وہ مذکورہ رپورٹ کے سلسلے میں وضاحت کے لیے فیس بک کو طلب کرسکتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے اس امریکی کمپنی کو ایک خط ارسال کیا ہے۔

 کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور کے اس بیان پر بی جے پی کے رکن پارلیمان اور مذکورہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے ایک رکن نشی کانت دوبے نے سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کی رضامند ی کے بغیر وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بی جی پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے اراکین پارلیمان سے اپیل کی کہ وہ تھرور کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اسپیکر کو خط لکھیں۔ تھرور کا کہنا تھا کہ وہ 'شہریوں کے حقوق کی حفاظت اور سوشل / آن لائن نیوز میڈیا پلیٹ فارموں کے غلط استعمال کوروکنے‘ پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن دوبے اس دلیل سے متفق نہیں ہوئے اور کہا کہ پارلیمانی پینل کو کسی پارٹی کے رہنما کی انا کی تسکین کا سیاسی پلیٹ فارم نہیں بنانا چاہیے۔ دوبے نے لکھا” ششی تھرور، کمیٹی اور اسپیکر کی اجازت کے بغیر راہل گاندھی کے ایجنڈا کو آگے نہ بڑھائیں۔"

پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے اس طرح سے کسی کو طلب کیا جانا دراصل عدالت کے طرف سے سمن جاری کر کے طلب کرنے کے مترادف ہے۔

اس دوران کمیٹی کی ایک دیگر رکن ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا بھی بحث میں شامل ہوگئیں اور کہا، "حیرت کی بات ہے کہ بی جے پی فیس بک کے مفادات کو بچانے کے لیے کس حد تک کچھ بھی کرنے کو تیار دکھائی دے رہی ہے۔"

ادھر دہلی پولیس کے ترجمان نے میڈیا کوبتایا کہ فیس بک کی انڈیا پبلک پالیسی ہیڈ آنکھی داس کی طرف سے ایک شکایت نامہ موصول ہوا ہے۔ پولیس نے معاملہ درج کرلیا ہے اور جلد ہی ان کا بیان ریکارڈ کرے گی۔

آنکھی داس نے پانچ افراد کے خلاف درج اپنی شکایت میں کہا ہے کہ 'وہ ان افراد کی طرف سے مسلسل حراساں کیے جانے کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں۔ انہیں جان سے مارنے کی دھمکی مل رہی ہے۔ اس میں ان کی تصویراستعمال کی جارہی ہے جس سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور وہ اپنے اہل خانہ کی سلامتی کے تئیں بھی خوف زدہ ہیں۔"

 آنکھی داس نے جن پانچ افراد کے خلاف شکایت درج کرائی ہے ان میں سے ایک چھتیس گڑھ کے صحافی آویش تیواری نے داس کے خلاف مذہبی جذبات کی توہین اور منافرت بھڑکانے کے الزامات کے تحت معاملہ درج کرادیا ہے۔

ڈیجیٹل حقوق کے حوالے سے سرگرم گروپوں اور ماہرین نے فیس بک پر عائد الزامات کو انتہائی 'خطرناک‘ قرار دیا ہے۔ انٹرنیٹ فریڈم فاونڈیشن نے ٹوئٹ کیا ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ اگر درست ہے تو اس سے بھارت میں300  ملین یوزرس اور ہماری جمہوریت کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ شہریوں کی سلامتی اور بھارتی جمہوریت کی صحت پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

سنٹر فار انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی کے توشا سرکار کا مشورہ ہے کہ ذمہ داریوں میں اضافہ کر کے اور بھارت میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے کام کاج کے طریقوں میں ڈھانچہ جاتی تبدیلی کر کے ہی اس صورت حال پر قابو پایا جاسکتاہے۔ انہو ں نے مزید کہا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ فیس بک کا ایلگورتھم تفریق پیدا کرنے والے مواد کو ترجیح دیتا ہے کیوں کہ ان پر زیادہ لوگوں کے ردعمل آتے ہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق فیس بک نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے 'ہیٹ اسپیچ' اورتشدد بھڑکانے والی پوسٹس کے خلاف کارروائی کرنے میں دانستہ طور پر تساہلی سے کام لیاتصویر: picture alliance / empics

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بک کے اس تنازعے میں حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی یا آرایس ایس نے وال اسٹریٹ جرنل میں شائع مضمون کی اب تک تردید نہیں کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی فیس بک کوکنٹرول کرتی ہے۔

اس صورت حال کے حوالے سے'دی ریئل فیس آف فیس بک ان انڈیا‘  کے مصنف اور صحافی پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا کا کہنا تھا، "بی جے پی کے ساتھ فیس بک کی قربت ہمیشہ باعث تشویش رہی ہے۔ بھارت میں فیس بک کے چوٹی کے افسران 2014 سے ہی بی جے پی کے مفادات کو فروغ دے رہے ہیں اور وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ نے اس کی تصدیق کردی ہے کہ فیس بک کے افسران ہیٹ اسپیچ میں ملوث بی جے پی کے رہنماؤں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے ہیں۔"

بھارت میں تجزیہ کاروں نے اس امر پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ فیس بک نے الگ الگ ملکوں کے لیے مختلف ضابطے کیوں بنا رکھے ہیں۔ بھارت کے لیے اس کا ضابطہ کچھ اور ہے جب کہ امریکہ اور دیگر یورپی ملکوں کے لیے اس کے ضابطے کچھ اور ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں