جنوبی ریاست کیرلا میں ایک مسلم خاتون نے مبینہ طور پر "خدا کے لیے قربانی" کے نام پر اپنے چھ سالہ بیٹے کو ہلاک کر دیا۔ پولیس نے ملزمہ کو گرفتار کر لیا ہے۔
اشتہار
بھارت کی جنوبی ریاست کیرلا میں پولیس حکام نے چھ برس کے بیٹے کے قتل کے الزام میں تیس سالہ ماں کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ماں نے خود مقامی تھانے میں فون کر کے پولیس کو بتایا کہ کس طرح اس نے ''اللہ سے قربت حاصل کرنے کے لیے'' اپنے چھ برس کے بیٹے کی جان لے لی۔
یہ واقعہ اتوار کی علی الصبح پالاکڈ ضلعے میں پیش آیا۔ پولیس حکام کے مطابق انہیں صبح تین بجے کے قریب ایک فون آیا جس میں 30 سالہ شاہدہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ اس نے قربانی دینے کے لیے اپنے چھ سالہ بیٹے عامل کا گلا کاٹ دیا۔ جب پولیس اس مکان پر پہنچی تو خون سے لت پت باتھ روم میں چھ سالہ بچے کی کٹی ہوئی لاش ملی۔
پالاکڈ ضلع کے سپریٹنڈنٹ آف پولیس وشواناتھ نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اب تک ایف آئی آر میں، ''جن باتوں کا ذکر ہے وہ خود ماں نے جو بھی کچھ بھی پولیس کو بتایا ہے اس کی بنیاد پر ہے۔ لیکن اس کی مزید تفتیش کی جائیگی تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ قتل کی وجہ یہی ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور بات ہے۔''
ایف آئی آر کے مطابق ماں نے بتایا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو، '' اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ذبح کر دیا۔'' پولیس نے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔
جب یہ واقعہ پیش آیا تو شاہدہ کے شوہر سلیمان اور ان کے دو دیگر بیٹے دوسرے کمرے میں گہری نیند میں سور رہے تھے۔ انہیں اس واقعے کا پتہ اس وقت چلا جب فجر کے وقت پولیس ان کے گھر پہنچی۔
توہم پرستی لیکن لوگ مطمئن
03:39
تیس سالہ ملزمہ شاہدہ قریب کے ایک مدرسے میں استانی ہیں اور وہ تین ماہ کی حاملہ بھی ہیں۔ ان کے شوہر پہلے خلیجی ملک میں کام کرتے تھے اور اب بھارت میں آٹو رکشہ چلاتے ہیں۔
بھارت میں توہم پرستی کی وجہ سے بعض فرقوں میں بچوں کی جان لینے کے واقعات ہوتے رہے ہیں تاہم مسلمانوں میں اس طرح کے واقعات شاذ و نادر بات ہے اور اس واقعے سے مقامی مسلمانوں میں خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ ایک نئی تشویش لاحق ہوگئی ہے۔
ایک مقامی صحافی پروین کمار نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس علاقے میں کالا جادو اور دیگر تعویذ گنڈے کا کاروبار عام بات ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''پالاکڈعلاقہ کیرالا میں جاود اور تعویز جیسی توہم پرستی کے لیے بہت معروف ہے۔ یہاں تک کہ اس کے لیے مسلم خواتین ہندو سادھوں کے پاس جاتی ہیں جبکہ ہندو خواتین اکثر مسلم پیر و فقیر کا سہارا لیتی ہیں۔''
وُودو: افریقہ کا ’کالا جادو‘
افریقہ سے جنم لینے والا وُودو ایک طرح کا مذہب بھی ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ مغربی افریقی ریاست بنین میں تو ہر سال دس جنوری کو وُودو کا ایک تہوار بھی منایا جاتا ہے اور اس موقع پر عام تعطیل ہوتی ہے۔
تصویر: K. Gänsler
ساحل پر کرتب
دنیا میں کہیں بھی وُودو کو اتنا زیادہ نہیں مانا جاتا، جتنا کہ بنین میں۔ ہر سال دس جنوری کو اس تہوار کے موقع پر خاص طور پر اس ساحل پر بہت زیادہ رونق ہوتی ہے۔ ملک کا اقتصادی مرکز تصور کیے جانے والے شہر کوتونو اور ایک اور شہر ویدہ کے درمیان واقع اس مقام پر ایک طرح کا عوامی جشن منایا جاتا ہے۔ اس روز مذہبی رسومات کم اور اس طرح کے میلے ٹھیلے زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: K. Gänsler
ہر گاؤں کی الگ رسم
ملک کے اندرونی علاقوں میں وُودو کو آج بھی بے انتہا اہمیت دی جاتی ہے اور بے شمار دیہات میں چھوٹی چھوٹی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ابومی کسی زمانے میں شاہی خاندان کا شہر کہلاتا تھا اور یہ منظر اسی شہر کے نواح میں واقع گاؤں کپیٹیپکا کا ہے۔ لوگ وجد میں آ کر رقص کرتے ہیں اور گیت گاتے ہیں اور یوں خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: K. Gänsler
وُودو، اپنے ماننے والوں کی نظر میں ایک مسلمہ حقیقت
بنین میں وُودو کے ماننے والوں کی اصل تعداد واضح نہیں ہے۔ بنین کی گیارہ ملین کی آبادی میں سے تقریباً گیارہ فیصد سرکاری طور پر خود کو وُودو کے پیروکار کہتے ہیں۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ بنین میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ آپ ایک طرف مسیحیت کا دم بھریں اور ساتھ ساتھ وُودو پر بھی عمل پیرا رہیں۔
تصویر: K. Gänsler
زکپاٹا: بے شمار دیوتاؤں میں سے ایک
بنین میں جگہ جگہ اور بالخصوص دیہی علاقوں میں نذر نیاز چڑھانے کے لیے اس طرح کے چبوترے اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ چبوترہ زکپاٹا نامی دیوتا کے لیے مخصوص ہے۔ وُودو عقائد کے مطابق یہ سبھی دیوتا انسانوں اور اُنہیں تخلیق کرنے والے خدا کے درمیان واسطے کا کام انجام دیتے ہیں۔
تصویر: K. Gänsler
دیوتاؤں کے لیے شراب
وُودو کے بہت سے دیوتاؤں میں سے کسی کے لیے بھی محض عقیدت کا اظہار ہی کافی نہیں ہے۔ یہاں باقاعدہ ایسی رسومات ہوتی ہیں، جن میں لوگ مختلف چیزیں چڑھاوے کے طور پر دیتے ہیں۔ بنین میں دیوتاؤں کو رام کرنے کے لیے مختلف طرح کی شرابوں کے ساتھ ساتھ سگریٹ بھی پیش کیے جاتے ہیں اور نذر نیاز کے طور پر کبھی کبھی مرغ یا بکری وغیرہ بھی۔ مختلف دیوتاؤں کی اپنی اپنی پسند ہے۔
تصویر: K. Gänsler
زندگی کے لیے اہم سوالوں کے جواب
جس کسی کو اہم سوالات کے جواب درکار ہوتے ہیں، وہ فا اوریکل کہلانے والے ’نجومیوں‘ میں سے کسی ایک سے رجوع کر سکتا ہے۔ یہ نجومی اکثر اس تصویر میں نظر آنے والی گوٹیوں کی مدد سے استخارہ کرتے ہیں۔ کئی سوالات ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں پوچھنے پر پابندی ہے، مثلاً کوئی شخص یہ نہیں پوچھ سکتا کہ اُس کا انتقال کب ہو گا۔
تصویر: K. Gänsler
آج کے دور میں قدیم ادویات
وُودو صرف رسومات، تقریبات اور استخارے کا ہی نام نہیں ہے۔ وُودو کا بہت قریبی تعلق اُن جڑی بوٹیوں سے بھی ہے، جو صدیوں سے مختلف بیماریوں مثلاً ملیریا وغیرہ کے علاج کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وکٹر اڈوہونانن قدیم نسخوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
تصویر: K. Gänsler
جادو ٹونے کی چیزیں
وُودو کا ایک اہم حصہ اس طرح کے بازار ہیں، جہاں جادو ٹونے کے لیے مختلف طرح کی عجیب و غریب چیزیں ملتی ہیں۔ یہ منظر بنین کے ہمسایہ ملک ٹوگو کے دارالحکومت لومے کا ہے۔ اس طرح کی دکانوں میں وُودو رسومات کے لیے کتوں کی کھوپڑیوں اور خشک کی ہوئی چھپکلیوں سے لے کر چیتے کی کھال تک بہت سی چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔
تصویر: K. Gänsler
خوش قسمتی کے لیے سووینئر
دو چھوٹے چھوٹے بتوں پر مشتمل یہ جوڑا وُودو کے ماننے والوں کے لیے خوش قسمتی کی علامت ہے۔ اس کا مقصد کسی شادی شُدہ زندگی میں خوشیاں لانا ہے۔ اسی طرح کی اور بھی بے شمار ’جادوئی‘ چیزیں ہیں، جو خاص طور پر سیاحوں کے لیے بنائی جاتی ہیں تاکہ وہ وطن جاتے ہوئے یہ چیزیں اپنے ساتھ ایک یادگار کے طور پر لے کر جائیں۔
تصویر: K. Gänsler
وُودو اور ملکی سیاست
وُودو کے اثرات رسومات تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بہت دُور تک جاتے ہیں۔ بنین کی اعلیٰ سیاسی قیادت بھی وُودو کو مانتی ہے۔ بنین میں وُودو کے سرکردہ ترین نمائندے ڈاگبو ہونون ہیں، جوویدہ میں بستے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ انتخابات سے پہلے تمام اُمیدوار اُن سے دعا کروانے آتے ہیں۔ آیا وہ بھی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اس سوال کے جواب میں اُنہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔
تصویر: K. Gänsler
10 تصاویر1 | 10
گزشتہ ماہ ہی جنوبی بھارت کے صوبے آنداھرا پردیش کے ضلع چتور میں ایک اعلی تعلیم یافتہ جوڑے نے اپنی دو جوان بیٹیوں کواس ''یقین'' کے ساتھ مار ڈالا تھا کہ اگلے روز طلوع آفتا ب ہوتے ہی وہ زندہ ہوجائیں گی کیوں کہ ''کل یگ'' (برا دور) ختم ہو رہا ہے اور ''ست یگ'' (بہترین دور) کا آغاز ہونے والا ہے۔ پولیس کے بر وقت پہنچ جانے سے خود کشی کرنے کی دونوں کی کوشش بہر حال ناکام ہوگئی تھی۔
وی پرشوتم نائیڈو نے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور ایک سرکاری کالج میں پرنسپل ہیں جبکہ ان کی بیوی پدمجا ریاضی میں پوسٹ گریجویٹ کر کے بھارت کے معروف تعلیمی ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے گولڈ میڈل بھی حاصل کر چُکی ہیں اور وہ ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ چلاتی ہیں۔ان دونوں کی دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی بیٹی، کی عمر27 سال اور نام الیکھیا تھا جو پوسٹ گریجویشن کر رہی تھی اورچھوٹی بیٹی 22 سالہ سائی دیویا بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ پروشوتم اور پدمجا دونوں ہی تواہم پرست ہیں۔ انہوں نے پہلے چھوٹی بیٹی کو ترشول سے مار ڈالا اور اس کے بعد بڑی بیٹی کے منہ پر تانبے کا برتن رکھا اوراس پر ہتھوڑے سے وار کر کے اس کو بھی ہلاک کردیا تھا۔پڑوسیوں نے شور سن کر پولیس کو مطلع کیا اور جب پولیس نے ان دونوں سے بیٹیوں کو قتل کرنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ دونوں بیٹیاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی زندہ ہوجائیں گی۔ ان دونوں کے چہروں پر بیٹیوں کے قتل کا ذرا سی بھی افسوس نہیں تھا۔