بھارت: قرض نادہندہ کسان ٹریکٹر کے نیچے کچل دیا گیا
صائمہ حیدر
22 جنوری 2018
بھارت میں پولیس کے مطابق ایک کسان اپنے ٹریکٹر کے قرض کی ادائیگی نہ کرنے پر سرمایہ کار کمپنی کے اہلکاروں سے جھگڑے میں اُسی ٹریکٹر کے نیچے کچلا گیا۔ کسان کے ذمے چودہ سو امریکی ڈالر واجب الادا تھے۔
اشتہار
پولیس کسانوں کو قرضہ جات فراہم کرنے والی ایک کمپنی کے ایسے پانچ افراد کو تلاش کر رہی ہے جو مبینہ طور پر اس واقعے کے ذمہ دار ہیں۔ ان افراد پر ممکنہ طور پر قتل کا مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔
بھارت میں کسان عموماﹰ اپنی کھیتی باڑی کے لیے ایسی سرمایہ کار کمپنیوں سے قرضہ لیتے ہیں جس کی ادائیگی اُن کے لیے بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔
بھارتی ریاست اترپردیش کے گاؤں سیتا پور میں ایک پینتالیس سالہ کسان کا قرض دہندہ کمپنی کے اہلکاروں سے اُس وقت جھگڑا ہو گیا جب وہ ہفتے کے روز اپنے ٹریکٹر پر کھیتوں میں کام کر رہا تھا۔
مقامی پولیس نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے کسان نے پانچ لاکھ بھارتی روپے کا قرض لیا تھا جو تقریباﹰ سات ہزار آٹھ سو امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ تاہم وہ اس میں سے چودہ سو امریکی ڈالر لوٹا نہیں سکا تھا۔
مقامی پولیس افسر محمد جاوید خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’ کسان نے قرض دینے والی کمپنی کے اہلکاروں کو ٹریکٹر پر چڑھنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن اس دوران خود ٹریکٹر سے نیچے گر کر اُس کے پہیوں تلے کچلا گیا۔‘‘ محمد جاوید خان کے مطابق ٹریکٹر اور اہلکار دونوں جائے واردات پر نہیں ملے۔
پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا اس ہلاکت میں سرمایہ کار کمپنی لارسن اینڈ ٹوبرو کے سینیر اہلکار تو ملوث نہیں۔ کمپنی نے البتہ اس واقعے کے حوالے سے کوئی فوری تذکرہ نہیں کیا ہے۔
جرمن زرعی شعبے کو درپیش مشکلات
جرمن کسان ملکی منڈی میں اپنی مصنوعات کی کم قیمت کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ ان کسانوں کو ماحول اور جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی تنقید بھی سننا پڑتی ہے۔ جرمنی میں زرعی شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Schulze
دودھ کی وافر پیداوار لیکن خریدار کم
یورپی یونین کی جانب سے دودھ کا کوٹہ ختم کیے جانے کے بعد سے دودھ کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے مابین ایک مقابلہ جاری ہے۔ گوالے نئی منڈیوں تک رسائی کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ روس کے خلاف عائد پابندیاں اور چینی معیشت میں سست روی ان کے خواب پورا نہیں ہونے دے رہے۔ آج کل دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی رسد ان کی طلب سے زیادہ ہے۔ ااس صورتحال میں یورپی یونین کو گوالوں کی مالی مدد کرنا پڑ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
وجود کو خطرہ
جرمنی میں کسانوں کی تنظیم ’ ڈی بی وی‘ کے صدر یوآخم رکوائڈ کے مطابق زرعی شعبے کا ایک بڑا حصہ اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔ وہ کہتے ہیں 2003ء سے 2013ء کے دوران جرمنی میں مختلف فارموں یا کھیتوں میں 32 فیصد تک کی کمی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، ’’خاص طور پر چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی کرنے والے کسان اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
ایک اہم آجر
جرمنی میں زرعی شعبے سے کوئی چھ لاکھ افراد منسلک ہیں۔ کسانوں کی تنظیم ’ڈی بی وی‘ کے مطابق یہ جرمنی کا ایک بہت اہم آجر شعبہ ہے۔ اس سلسلے میں رواں برس ہینوور میں ہونے والے کسانوں کے ملکی کنوینشن کا موٹو ہے، ’’مضبوط زراعت، اچھے مستقبل کی ضمانت۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
تصورات اور خیالات
سر سبز مرغزار، ان میں گھومتے ہوئے صحت مند مویشی اور دلکش کھیت۔ کسی بھی شخص سے اگر کھیتی باڑی کی بات کی جائے تو اس کے ذہن میں کچھ ایسی ہی تصویر بنتی ہے۔ 2013ء میں کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق 80 فیصد جرمن شہری ملکی زراعت کو جرمنی اور جرمن روایات کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔
زرعی شعبے میں کئی حقائق عمومی تصورات سے مختلف ہیں۔ مثلاﹰ آج کل زرعی شعبے میں بھی صنعتی پیمانے پر مصنوعات کی پیداوار دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ کیڑے مار ادویات کے بے پناہ استعمال کی وجہ سےبھی عام کسانوں کی پیداواری مصنوعات کی مانگ کم ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters
کھیتی باڑی ماحول کے لیے نقصان دہ بھی
تحفظ ماحول کی تنظیموں کے مطابق کھیتی باڑی بھی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔ زمین کو نرم کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیکل سے’لافنگ گیس‘ پیدا ہوتی ہے اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی 300 گنا زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں 43 لاکھ دودھ دینے والی گائیں میتھین گیس خارج کرتی ہیں۔ 2014ء میں جرمنی میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی دوسری سب سے بڑی وجہ ملکی زرعی شعبہ تھا۔
تصویر: picture alliance/F. May
گوشت کی مانگ میں اضافہ
جرمنی کو یورپ کا مذبحہ خانہ کہا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں 2015ء کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 30 ملین سؤر، 1.7 ملین گائیں اور 325 ملین مرغیاں گوشت کے لیے استعمال کی گئیں۔ اس کے علاوہ بھی لوگ چھپ کر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔ پھر اس خدشے کے پیش نظر کہ جانور کہیں ایک دوسرے کو زخمی نہ کر دیں، خنزیروں اور گائیوں کی دمیں کاٹ دی جاتی ہیں جبکہ مرغیوں کے چوزوں کی چونچیں بھی آگے سے تراش دی جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images
یورپی یونین کی جانب سے اعانت
ابھی کچھ سال پہلے تک یورپی یونین کی جانب سے زرعی شعبے کے کارکنوں اور اداروں کو دی جانے والی مالی اعانتیں بےضبط انداز میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر جتنا بڑا کھیت یا فارم ہو گا،اتنی ہی زیادہ رقم ملے گی۔ اس پالیسی کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
پالیسی میں تبدیلی
2014ء میں یورپی یونین نے اپنی زرعی پالیسی میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ اب مالی اعانت کے حق دار صرف ماحول دوست کاشتکار قرار پاتے ہیں۔ اس طرح عام کسانوں نے کھیتی باڑی کے دوران کیمیائی مادوں کا استعمال کم کر دیا ہے اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا طریقہ کار بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
بائیو مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ
جرمنی میں گزشتہ دہائی کے دوران بائیو یا تحفظ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے کی جانے والی کاشتکاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بائیو فارمز کی تعداد ان دس سالوں میں پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی بڑھی ہے۔ جرمنی میں کل زرعی رقبے کا چھ فیصد حصہ بائیو فارمنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ آسٹریا میں یہ شرح بیس فیصد ہے۔