بھارت میں مالی طور پر پریشان حال قبائلی اپنے خاندان کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چند روپے کے خاطر اپنا سب سے قیمتی اثاثہ ’راشن کارڈ‘ گروی رکھنے پر مجبور ہیں۔
اشتہار
یہ افسوس اور حیرت ناک بات ریاست مغربی بنگال کے پرولیا ضلع کے گاوں سے سامنے آئی ہے جہاں قبائلی اناج اورعلاج کی خاطر پیسے کے لیے اپنے راشن کارڈ ساہوکاروں اور سود خوروں کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں۔
یہ معا ملہ اس وقت سامنے آیا جب مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے لاک ڈاون کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا خط افلاس سے نیچے رہنے والے افراد کوعوامی نظام تقسیم کے ذریعہ چھ ماہ تک ہر ماہ پانچ کلوچاول اورپانچ کلو دال دینے کا اعلان کیا۔
چونکہ غریب قبائلیوں کا راشن کارڈ ساہوں کاروں کے پاس رہتا تھا اس لیے ساہو کار راشن کارڈ پر ملنے والا سستا اناج خود اٹھا لیتے تھے اور اسے بازار میں مہنگے داموں میں فروخت کردیتے تھے۔ لاک ڈاون کے بعد جب حکومت نے غریبوں کو مفت میں راشن دینے کا اعلان کیا تو پتہ چلا کہ ان لوگوں کے پاس تو راشن کارڈ ہی نہیں ہیں۔ ممتا بنرجی اس بے ضابطگی سے خاصی ناراض ہوئیں اور انہوں نے فوڈ سکریٹری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پرولیا ضلع کے جھالدا بلاک کے سروج ماتو گاوں میں تقریباً ڈیڑھ سو خاندان رہتے ہیں۔ ان سب کے راشن کارڈ ساہو کار کے پاس گروی رکھے تھے۔ گاوں کے ایک بزرگ نے بتایا، ”میں نے دس سال قبل بیوی کے علاج کے لیے ایک ساہوکا ر سے دس ہزار روپے قرض لیے تھے اس کے بدلے میں راشن کارڈ گروی رکھنا پڑا تھا۔“ اسی گاوں کی 70سالہ رادھیکا کا کہنا تھاکہ چار برس قبل سات ہزار روپے کے عوض میں انہوں نے اپنا راشن کارڈ گروی رکھ دیا تھا۔
ایک مقامی سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ ”اس معاملے کی تفتیش ہورہی ہے۔ فی الحال ساہوکاروں سے راشن کارڈ لے کر متعلقہ افراد کو سونپ دیا گیا ہے لیکن فریقین میں معاہدہ ہوجانے کی وجہ سے گاوں والوں نے ساہوکاروں کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی ہے۔“
یہ کہانی پرولیا کے صرف ایک گاو ں تک محدود نہیں ہے۔ ایسے درجنوں گاوں ہیں جہاں یہی صورت حال ہے۔ لوگ ضرورت کے تحت ساہو کاروں سے قرض لیتے ہیں اور ساہوکار اس کے بدلے میں ان کا راشن کارڈ گروی رکھ لیتے ہیں۔ اس کارڈ پر بہت معمولی قیمت میں ملنے والا اناج خرید کر مہنگے داموں میں بازار میں بیچ دیتے ہیں۔
ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ گاوں کے ان قبائلیوں کے پاس اثاثے کے نام پر راشن کارڈ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس لیے بیماری کا علاج کرانا ہو یا بیٹی کی شادی کرنی ہو، قرض کے لیے یہی ان کا سرمایہ ہے۔ اسے گروی رکھ کر قرض لینا ان علاقوں میں عام بات ہے۔ ماہر سماجیات پروفیسر سدیپ چٹرجی کہتے ہیں ”مڈل کلاس کے خاندان جس طرح سونا گروی رکھ کر قرض لیتے ہیں اسی طرح اس علاقے کے لوگ راشن کارڈ گروی میں رکھتے ہیں۔ کئی معاملات میں تو قرض ادا کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے نسل در نسل یہ کارڈ ساہوکار کے پاس ہی رہتا ہے۔“ قانونی طور پر راشن کارڈ کسی دوسرے کو منتقل نہیں کیا جاسکتا اس کے باوجود یہ غیر قانونی کام برسوں سے چل رہا تھا۔ ضلع کے دیگر تمام گاوں میں بھی انکوائری کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔
پرولیا کے ضلع مجسٹریٹ راہول مجمدار کہتے ہیں ”لاک ڈاون نہیں ہوتا تو یہ بات سامنے ہی نہیں آتی۔“ لیکن پرولیا ڈسٹرکٹ کاونسل کے چیئرمین سورج بنرجی کا کہنا ہے کہ ”راشن کارڈ گروی رکھنے والے اور ساہوکار دونوں ہی یکساں طور پر قصور وار ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انتظامیہ کارروائی کرے۔ لیکن پانی میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی کرنا شاید کوئی نہیں چاہتا۔ اس لیے گاوں کے لوگوں نے ساہو کار کے خلاف اب تک تحریری شکایت نہیں درج کرائی ہے۔“
دوسری طرف ساہوکار حکومت کے اس اقدام سے ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گاوں کے لوگوں نے جو قرض لیے تھے اس کے بدلے میں راشن کارڈ گروی کے طور پر رکھے تھے۔ پولیس نے کارڈ تو واپس لے لیا لیکن ہمارے پیسوں کا کیا ہوگا۔ ہمارے پیسے کون واپس دلائے گا؟
مغربی بنگال میں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنمانے اس واقعے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا”میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ راشن کارڈ گروی رکھنے کا معاملہ دیکھا۔ حکومت ترقی کے دعوے کرتی ہے لیکن حقیقی صورت حال یکسر مختلف ہے۔“
جاوید اختر/پربھاکر، نئی دہلی
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔