1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: قرنطینہ میں خاتون کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی

جاوید اختر، نئی دہلی
27 اپریل 2020

بھارتی صوبے راجستھان میں قرنطینہ میں ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کا از خود نوٹس لیتے ہوئے قومی خواتین کمیشن نے قصورواروں کے خلاف آج سخت قانونی کارروائی کا حکم دیا۔

Indien l Proteste gegen Vergewaltigungen
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury

قرنطینہ میں اجتماعی جنسی زیادتی کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب بھارت میں لاک ڈاون کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے اور سینکڑوں میل دور اپنے گھروں تک پہنچنے کے لیے پیدل ہی نکل پڑے تھے لیکن انہیں مختلف مقامات پر قرنطینہ مراکز میں ’ٹھونس‘ دیا گیا اور  حکام یہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے۔

قومی خواتین کمیشن نے پیر27 اپریل کو میڈیا کو بتایا کہ جے پور کی رہنے والی یہ40 سالہ خاتون ملک گیر لاک ڈاون کی وجہ سے راجستھان کے دوسا ضلع میں پھنس گئی تھیں۔ انہیں ایک اسکول میں قرنطینہ میں رکھا گیا تھا جہاں 23 اور 24 اپریل کی رات میں ان کے ساتھ تین لوگوں نے اجتماعی جنسی زیادتی کی۔ کمیشن نے راجستھان کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کو حکم دیا کہ وہ اس واقعے کی فوراً تفتیش کریں اور قصورواروں اور خطاکار پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کریں۔

جے پور کی رہنے والی یہ خاتون یومیہ مزدوری پر گزر بسر کرتی تھیں۔ ان کا بیٹا دوسا جیل میں بند ہے جس سے وہ ملنے کے لیے وہاں گئی تھیں۔ لیکن لاک ڈاون ہونے کی وجہ سے پچھلے ایک ماہ سے پھنسی ہوئی تھیں۔ انہوں نے بالآخر پیدل ہی اپنے گھر جانے کا فیصلہ کیا لیکن راستہ بھٹک کر سوائی مادھو پور ضلع پہنچ گئیں۔

سوائی مادھو پور ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سدھیر چودھری کا کہنا تھا ”اس خاتون کے بیٹے کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے جے پور سے دوسا جیل میں منتقل کردیا گیا تھا ۔وہ پچھلے ایک ماہ سے ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔  23 اپریل کو وہ ایک گاوں میں پہنچیں جہاں مقامی پولیس اہلکار نے اپنے اعلی افسران کو اس کی اطلاع دی۔“  سدھیر چودھری کا کہنا تھا کہ اس کے بعد پولیس محکمہ نے، مقامی تھانہ کے ہیڈ کانسٹبل، ایک سرکاری اسکول کے دو ٹیچروں اور گاوں والوں کے متفقہ فیصلہ کے بعد طے کیا کہ اس خاتون کو رات گزارنے کے لیے ایک اسکول میں ٹھہرادیا جائے۔ دونوں ٹیچر بعد میں اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اس دوران رات میں تین مقامی لوگوں نے اس خاتون کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی۔

پولیس کے ایک دیگر اعلی افسر بارتھ شرما کا کہنا تھا”حالانکہ پولیس نے کچھ ذمہ دار لوگوں کی نگرانی میں اس خاتون کو دیا تھا لیکن رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تین لوگوں نے اس کے ساتھ غلط کام کیا اور اسے دھمکی دی۔  اگلے دن اس خاتون نے پولیس میں شکایت درج کرائی جس کے بعد تینوں مقامی افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔“

بھارت میں سخت قوانین کے باوجود ہر بیس منٹ پر جنسی زیادتی کا ایک معاملہ پیش آتا ہے۔تصویر: Reuters/D. Diddiqui

ایک سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر بتایا کہ حالانکہ مقامی حکام نے کہا تھا کہ اسکول خالی ہے اس لیے اس میں خاتون کو اکیلے نہ رکھا جائے لیکن گاوں والوں کا کہنا تھا کہ چونکہ اس کابیٹا کورونا وائرس سے متاثر ہے اس لیے خدشہ ہے کہ یہ بھی اس وائرس سے متاثر ہوگی لہذا اسے الگ تھلگ ہی رکھا جائے۔

ایس پی سدھیر چودھری نے تسلیم کیا کہ اصولی طور پر اس خاتون کے ساتھ کسی خاتون کانسٹبل یا مقامی خاتون کو رکھا جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہیڈکانسٹبل کو معطل کردیا گیا ہے۔انہوں نے اسکول ٹیچروں پر بھی لاپرواہی کا الزام لگایا۔

خیال رہے کہ بھارت میں جنسی زیادتی کے خلاف سخت قوانین کے باوجود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ہر بیس منٹ پر جنسی زیادتی کا ایک معاملہ پیش آتا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے بھارت میں 25 مارچ سے جاری لاک ڈاون کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں پر پڑا ہے۔ مختلف مقامات پر سینکڑوں مزدور آئسولیشن کیمپوں میں بند کرکے رکھ دیے گئے ہیں۔ دوسری طرف ماہرین کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کے باوجود کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنا مشکل ہے کیوں کہ اس سے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

کووڈ۔انیس پر نگاہ رکھنے والے ایک غیرحکومتی ادارے کے مطابق 27 اپریل کو راجستھا ن میں کووڈ سے متاثرین کی مصدقہ تعداد 2234 تھی جب کہ 46افراد کی موت ہوچکی ہے۔ دوسری طرف بھارت میں مجموعی طور پر 28 ہزار 118 افراد اس عالمگیر وبا سے متاثر ہوچکے ہیں جب کہ 886 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

پاکستان: مدارس میں بچوں کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے واقعات

02:03

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں