1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: قوانین مزید سخت لیکن گینگ ریپ پھر بھی جاری

امجد علی25 دسمبر 2015

شمالی بھارت میں پولیس ایک پندرہ سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور پھر اُس لڑکی کی ہلاکت کے ایک واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اس واقعے پر مشتعل شہریوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

Neu Delhi Protest Vergewaltigung Freilassung Indien
بھارت میں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف آئے روز شدید مظاہرے ہوتے رہتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/T.Topgyal

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے نئی دہلی سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ پندرہ سالہ لڑکی ایک اسکول طالبہ تھی۔ پولیس افسر ہیمراج مینا کے مطابق ریاست اُتر پردیش کے ضلع علی گڑھ کے ایک گاؤں کے قریب چار افراد نے اس طالبہ کو اُس کی بائیسکل سے کھینچ کر ا ُتارا اور اسے قریب ہی گنّے کے ایک کھیت میں لے جا کر پہلے اُسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اُس کے گلے میں پھندا ڈال کر اُسے مار ڈالا۔

دیہاتیوں کو اس طالبہ کی لاش اگلے روز یعنی جمعرات کو ملی، جنہوں نے ملزمان کو پکڑنے کے لیے پولیس کی جانب سے کارروائی نہ کیے جانے پر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ ان مظاہروں کے دوران پولیس کے چار اہلکار زخمی بھی ہو گئے۔

علی گڑھ پولیس کے چیف جے رویندر گاؤڈ نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑکی کی موت کا سبب اُس کے پوسٹ مارٹم کے بعد ہی واضح ہو سکے گا‘۔ بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کے سلسلے میں دو افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

بظاہر ایک اور جنسی جرم کے اس واقعے سے ایک ہی ہفتہ قبل بھارت میں دسمبر 2012ء میں رونما ہونے والے اجتماعی جنسی زیادتی کے ایک واقعے میں ملوث سب سے کم عمر ملزم کو جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ اس رہائی پر بھارت بھر میں شدید احتجاج کیا گیا تھا۔

پولیس اس قتل کے سلسلے میں دو افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ لڑکی کے قتل کا سبب پوسٹ مارٹم سے ہی پتہ چل سکے گا (فائل فوٹو)تصویر: picture-alliance/AP Photo

ابھی منگل کے روز ملکی پارلیمان نے ایک نئے قانون کی منظوری دی تھی، جس کے تحت ریپ یا قتل جیسے سنگین جرائم کے لیے آئندہ سولہ تا اٹھارہ سال کے نوجوانوں کو بھی بالغوں کے طور پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں