بھارت: قومی انتخابات کے نتائج وزیر اعظم مودی کے لیے دھچکا
5 جون 2024بھارتی الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے تمام نتائج کا اعلان کردیا ہے۔گجرات کی سورت سیٹ پر بی جے پی کے امیدوار مکیش دلال پہلے ہی بلامقابلہ منتخب قرار دے دیے گئے تھے۔ 543 رکنی بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا، کی 542 سیٹوں کے لیے سات مرحلوں میں انتخابات کرائے گئے تھے اور مکمل نتائج کل دیر رات آگئے۔
کیا ’مودی کا جادو‘ ختم ہو رہا ہے؟
بھارتی پارلیمانی الیکشن: نریندر مودی نے فتح کا اعلان کر دیا
بھارت میں حکومت سازی کے لیے کسی جماعت یا اتحاد کو کم از کم 272 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے۔ مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) صرف 240 سیٹیں ہی حاصل کرسکی، جو کہ سنہ 2019 اور سنہ 2014 میں بالترتیب 303 اور 282 سیٹوں سے بہت کم ہے۔ اسے حکومت سازی کے لیے اب اپنی حلیف جماعتوں کے تعاون پر انحصار کرنا پڑے گا۔بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے اتحاد نے مجموعی طورپر 286 سیٹیں حاصل کی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی سیاسی تاریخ کے مدنظر فی الحال کوئی حتمی نتیجہ نکالنا درست نہیں ہو گا۔ بی جے پی جن دو بڑی حلیف جماعتوں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جنتا دل یونائیڈ اور آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی پر انحصار کررہی ہے وہ ماضی میں اپوزیشن کانگریس کے ساتھ اتحاد کرچکی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں نے بالترتیب 16 اور 12 سیٹیں جیتی ہیں۔
بھارت: انتخابی نتائج کے درمیان شیئر مارکیٹ میں زبردست گراوٹ
بھارتی الیکشن میں کتنے لوگوں نے ووٹ ڈالا؟
ذرائع کے مطابق کانگریس پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے کئی اہم رہنما نتیش کمار اور نائیڈو سے بات چیت کر رہے ہیں۔
کارکنوں کا حوصلہ بلند رکھنے کی کوشش
بی جے پی کو سب سے بڑا دھچکا اس کے گڑھ ریاست اترپردیش اور راجستھان میں پہنچا ہے۔ حتی کہ ایودھیا کی سیٹ بھی اس کے ہاتھوں سے نکل گئی، جہاں رام مندر تعمیر کرانے کے نام پر اس نے پورے ملک میں ہندو ووٹروں کی صف بندی کرنے کی کوشش کی تھی۔ مغربی بنگال میں بھی اپنے پاؤں جمانے کی اس کی کوششوں پر ووٹروں نے پانی پھیر دیا۔ البتہ مشرقی ریاست اوڈیشہ میں اسے پہلی مرتبہ بڑی کامیابی ملی۔
نتائج کے اعلانات کے درمیان ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں بی جے پی کے ہیڈکوارٹر میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھارت کے ووٹروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن مل کر اور اتحاد بنانے کے باوجود اتنی سیٹیں نہیں لاسکتی جتنا بی جے اتحاد لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ انہوں نے اسے ایک "بڑا منگل" (بڑی فتح) قرار دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی تقریر میں انہوں نے نہ تو رام کا نام لیا اور نہ ہی 'مودی کی گارنٹی' کا ذکر کیا۔ حتی کہ شاید پہلی مرتبہ اسٹیج پر نصب بینر پر اردو میں بھی 'شکریہ بھارت' لکھا ہوا نظر آیا۔
تجزیہ کار اسے انتخابی نتائج کا واضح اثر قرار دے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی اور بالخصوص اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس اس ناکامی سے یقینی طورپر فکر مند ہے لیکن وزیر اعظم مودی نے اپنے کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ تقریر کی۔ اس موقع پر پارٹی صدر جے پی نڈا اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی تقریریں کیں۔
کانگریس کی بڑی واپسی
اس الیکشن میں سب سے بڑا فائدہ اپوزیشن کانگریس کو پہنچا ہے۔ سن 2019 میں 52 سیٹوں کے مقابلے اس مرتبہ اس نے 99 سیٹیں جیت لیں۔ جب کہ اس کی قیادت والی انڈیا اتحاد کو مجموعی طور پر 231 سیٹیں ملی ہیں۔
کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے "بھارتی آئین کو بچانے" کے لیے ووٹروں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا،"مجھے بھارت کے عوام پر انتہائی فخر ہے، مجھے اس بات پر بھی انتہائی فخر ہے کہ بھارت کے عوام نے تمام تر زیادتیوں اور حملوں کی پوری شدت سے مزاحمت کی۔"
راہول گاندھی کا کہنا تھا،"اس ملک کے غریبوں نے بھارتی آئین کا بھرپور دفاع کیا۔"انہوں نے مزید کہا کہ "یہ الیکشن مودی کی اخلاقی اور سیاسی شکست" ہے۔
کانگریس پارٹی کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے "اسے عوام کی فتح اور جمہوریت کی جیت" قرار دیا۔
دیگر اہم سیاسی جماعتوں میں انڈیا اتحاد میں شامل سماج وادی پارٹی نے اترپردیش میں 37سیٹیں جیتی ہیں۔ دوسری طرف مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس پارٹی کو 29 سیٹیں حاصل ہوئیں، جو کہ سن 2019میں 22 سیٹوں کے مقابلے میں سات زیادہ ہیں۔
الیکشن کے نتائج کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مودی آئندہ ہفتے کے روز تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا کر بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے ریکارڈ کی برابری کرلیں لیکن وہ سیاسی لحاظ سے پہلے کے مقابلے کمزور ہوں گے۔
نریندر مودی کو اب بی جے پی کی کئی متنازعہ پالیسیوں اور اقدامات کے سلسلے میں توازن برقرار رکھنا پڑے گا۔ اتحادی پارٹیوں، جن کے اپنے مفادات ہیں، کی طرف سے دباو کی وجہ سے وہ ایسا کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کو اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے کئی وعدوں کو بھی التوا میں ڈالنا پڑسکتا ہے۔ان میں لیبر قوانین میں اصلاحات شامل ہے۔ مودی حکومت نے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے متعدد اصلاحات کا وعدہ کیا ہے، حالانکہ اپوزیشن جماعتیں اس کی شدید مخالف ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار زویا حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ووٹروں نے "بھارت کو اور بالخصوص اس کی جمہوریت اور آئین کو ایک بدتر صورت حال میں جانے سے بچا لیا۔ یہ بی جے پی کی پالیسیوں کو مسترد کرنے کا بھی ثبوت ہے۔"