بھارت: ماؤ نواز باغی حکومت سے مذاکرات کےلئےتیار
18 اگست 2010بھارت کی ماؤ نواز کمیونسٹ جماعت کے ترجمان کوٹیسوارا راؤ عرُف کشن جی نے منگل کو جاری کردہ ایک ویڈیو ٹیپ میں حکومت کو تین ماہ کی جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔
15 اگست، بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر وزیرِاعظم مَن موہن سنگھ اور صدر پرتیبھا پاٹل دونوں نے اپنی اپنی تقاریر میں ماؤ نواز باغیوں کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔
کشن جی نے ثالث کے طور پر سماجی کارکن سوامی اگنی ویش یا پھر وزیر برائے ریلوے ممتا بینرجی کا نام تجویز کیا ہے۔ کشن جی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مغربی بنگال کے مشرقی حصّے میں روپوش ہیں۔
کشن جی نے مزید کہا، ’ہم یہ بات صاف واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم تشدد کے خلاف ہیں اور ہمیں حکومت نے ہتھیار اُٹھانے پر مجبور کیا ہے‘۔
گزشتہ سال کئی وُزراء اور ماؤ نواز باغیوں کی طرف سے جنگ بندی کی پیشکشیں ہوئیں مگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لئے اُس کی وہی پرانی شرط ہے کہ پہلے باغی بہتر گھنٹے کی جنگ بندی پر عمل کریں، پھر حکومت جنگ بندی پر عمل کرے گی۔
بھارت کے وفاقی ہوم سیکرٹری جی کے پلائی کا کہنا ہے، ’کشن جی کا جو دل چاہے کہے مگر ہم نے بھی اپنی شرط سامنے رکھ دی ہے کہ ماؤ باغیوں کو مذاکرات کے لئے تشدد ترک کرنا پڑے گا‘۔
اُدھر کشن جی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی دو طرفہ ہونی چاہئے اور جب تک حکومت کوئی مؤثر اور مثبت اقدامات نہیں کرتی، یکطرفہ جنگ بندی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اگر وزیرِاعظم واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہیں، تو پہلے وہ کوئی قدم اُٹھائیں۔
بھارتی وزیرِاعظم مَن موہن سنگھ بائیں بازوکی عسکریت پسندی اور سرکشی کو بھارت کے لئے سب سے بڑا اندرونی خطرہ قرار دے چکے ہیں۔
ماؤ باغی تحریک زیادہ تر غریب علاقوں میں سرگرم ہے۔ اِس تحریک کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ وہ بے گھروں، غریبوں اور قبائلیوں کے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں۔
دہشت گردی سے متعلق ساؤتھ ایشیا پورٹل وَیب سائٹ کے مطابق 2005ء سے لے کر اب تک ماؤ نوازوں کی پُر تشدد کارروائیوں میں عام شہریوں، سکیورٹی اہلکاروں اور باغیوں سمیت چار ہزار پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: سمن جعفری
ادارت: امجد علی