1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولبھارت

بھارت: ماں کا دودھ اب ’اَمرِت‘ کے بجائے ’زہر‘؟

جاوید اختر ، نئی دہلی
27 نومبر 2025

دنیا میں اس نوعیت کی پہلی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بھارتی ریاست بہار کے کئی اضلاع میں خواتین کے دودھ میں یورینیم کی زیادہ مقدار پائی گئی ہے۔ یورینیم جسم میں جانے سے شیر خوار بچوں میں صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے
ماہرینِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ماں کے دودھ کے ذریعے یورینیم جسم میں داخل ہونے سے شیر خوار بچوں میں صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیںتصویر: Fabio Teixeira/AA/picture alliance

گزشتہ برس بھارت میں سائنسدانوں نے ماں کے دودھ میں سیسہ پائے جانے کا انکشاف کیا تھا اور کچھ سال پہلے آرسینک کی موجودگی بھی سامنے آئی تھی۔ مگر اب دودھ پلانے والی خواتین کے دودھ میں یورینیم کی موجودگی نے آلودگی کے حوالے سے بحث کو مزید شدت دے دی ہے۔

یورینیم ایک قدرتی تابکار عنصر ہے، اور اس کی تابکار اور کیمیائی دونوں خصوصیات انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔

سال 2021 سے 2024 تک بھارت میں بھوجپور، کٹیہار، نالندہ، کھگڑیا، سمستی پور اور بیگو سرائے کی 17 سے 35 سال عمر کی 40 خواتین پر تحقیق کی گئی۔ تجزیہ کیے گئے ماں کے دودھ کے نمونوں میں یورینیم کی مقدار 5.25 مائیکروگرام فی لیٹر تک پائی گئی۔ ہر نمونے میں یورینیم کی کچھ نہ کچھ مقدار موجود تھی۔ یعنی صد فیصد نمونے آلودہ پائے گئے۔

حالانکہ ابھی تک ماں کے دودھ میں یورینیم کی محفوظ یا خطرناک حد طے نہیں کی گئی ہے۔ تحقیق سے متعلق رپورٹ بین الاقوامی جریدے نیچر میں گزشتہ ہفتے شائع ہوئی ہے۔

یہ تحقیق دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) نے پٹنہ کے مہاویر کینسر انسٹی ٹیوٹ اور ویشالی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فارماسوٹیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(نائیپر) سمیت پانچ دیگر اداروں کے تعاون سے انجام دی۔

تجزیہ کیے گئے ماں کے دودھ کے ہر نمونے میں یورینیم کی کچھ نہ کچھ مقدار موجود تھی۔ یعنی صد فیصد نمونے آلودہ پائے گئےتصویر: Piyal Adhikary/dpa/picture alliance

شیر خوار بچوں کی صحت کے لیے انتہائی نقصاندہ

ماہرینِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ماں کے دودھ کے ذریعے یورینیم جسم میں داخل ہونے سے شیر خوار بچوں میں صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن افراد پر یہ تحقیق کی گئی، ان میں کینسر کے خطرے کی کوئی علامت سامنے نہیں آئی۔

تحقیق میں شامل سائنسدان ارون کمار کے مطابق بچوں اور ماؤں میں کینسر کے خطرے اور ہیلتھ ہیزرڈ کوٹینٹ (ایچ ایچ کیو) کا بھی جائزہ لیا گیا تاکہ یورینیم کے ممکنہ صحت کے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکے۔

تحقیق سے پیدا ہونے والے سائنسی خدشات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا،''پانی میں یورینیم کے لیے حد مقرر ہے، لیکن ماں کے دودھ میں ایسی کوئی حد طے نہیں۔ تاہم دودھ میں یورینیم کی موجودگی بلاشبہ تشویش کا باعث ہے۔‘‘

ماہرین کے مطابق یورینیم آلودہ ماں کے دودھ سے دو قسم کے نقصان ہو سکتے ہیں۔ اول غیر سرطان زدہ، جو گردے اور اعصابی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور دوم سرطان زدہ، جو کینسر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہےتصویر: AP

یورینیم ماں کے دودھ میں کیسے پہنچا؟

جب مہاویر کینسر انسٹی ٹیوٹ کے ہیڈ آف میڈیکل ریسرچ پروفیسر اشوک کمار گھوش سے پوچھا گیا کہ یورینیم ماں کے دودھ میں کیسے پہنچا، تو انہوں نے کہا،''یہ بہت ممکن ہے کہ یہ دھات یا تو پینے کے پانی کے ذریعے یا پھر فوڈ چین کے ذریعے ماں کے جسم میں داخل ہوئی ہو۔‘‘

چونکہ آرسینک فوڈ چین (چاول، گندم، آلو) میں پایا جا چکا ہے، اس بنیاد پر شبہ ہے کہ یورینیم بھی پینے کے پانی، زرعی اجناس، کھانے کے ذریعے جسم تک پہنچ رہا ہے۔

اس سے بچوں کی صحت کے خطرے کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر گھوش نے کہا کہ اس سے دو قسم کے نقصان ہو سکتے ہیں۔ اول غیر سرطان زدہ، جو گردے اور اعصابی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور دوم سرطان زدہ، جو کینسر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ماہرین نے تاہم کہا کہ ماں کا دودھ شیرخوار بچوں کے لیے سب سے اہم غذائیت فراہم کرتا ہے۔ پٹنہ کے مہاویر کینسر انسٹی ٹیوٹ کی میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر منیشا کا کہنا ہے،''ماں کا دودھ امرت ہے اس سے بچوں کو بیماریوں سے لڑنے کی طاقت ملتی ہے۔ اس لیے ماؤں کو دودھ پلانے میں پریشانی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

یہ تحقیق دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) نے پانچ ایگر طبی اداروں کے ساتھ مل کر کیتصویر: Ab Rauoof Ganie/DW

زیر زمین پانی کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ

زیر زمین پانی میں یورینیم کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس سے بھارت کے 18 ریاستوں کے 151 اضلاع متاثر ہیں۔

دو سال قبل بہار کے 11 اضلاع میں پانی میں یورینیم 50 مائیکروگرام فی لیٹر سے زیادہ پائی گئی تھی۔ کئی علاقوں میں آئرن، فلورائیڈ، آرسینک کی بہت زیادہ مقدار پائی گئی۔

عالمی ادارۂ صحت نے پانی میں یورینیم کی زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول سطح 30 مائیکروگرام فی لیٹر مقرر کی ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس حد سے زیادہ مقدار گردوں کی کارکردگی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

پروفیسر اشوک کمار گھوش کئی سالوں سے پانی کے معیار پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق بہار میں پانی کے ٹیسٹ سے آرسینک، فلورائیڈ، مینگنیز، کرومیم، مرکری اور یورینیم کے آثار پائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر اشوک گھوش کا کہنا ہے کہ کلینیکل اسٹڈی کے ساتھ ساتھ فوڈ چین اور پانی میں یورینیم کی وجہ جاننے کے لیے بڑی سطح پر سرکاری تعاون ضروری ہے۔

ادارت: رابعہ بگٹی

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں