بھارتی سپریم کورٹ نے متنازعہ ذرعی قوانین کے نفاذ پر تا حکم ثانی روک لگا دی اور بحران کو حل کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
بھارت میں جن متنازعہ ذرعی قوانین کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ مدت سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں ان کے نفاذ پر سپریم کورٹ نے منگل بارہ جنوری کو روک لگا دی ہے۔ عدالت عظمی نے کسانوں سے بات چیت کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے جو فریقین سے بات چیت کے بعد اس بحران کا حل تلاش کرے گی۔
چیف جسٹس کی صدارت میں تین رکنی بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے سنجیدہ ہے اسی لیے اس سے جو کچھ بھی ہوسکتا ہے اقدامات کر رہی ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا، ''آئندہ احکامات تک ہم ان قوانین کے نفاذ پر روک لگا رہے ہیں۔''
دوران سماعت عدالت نے کہا، '' اب یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ ہمیں قوانین پر تشویش ہے۔ ہمیں اس کے خلاف ہونے والے احتجاج سے متاثر ہونے والے اثاثوں کی بھی فکر ہے۔ ہم احسن طریقے سے اسے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ان قوانین کو معطل کرنے کا اختیار بھی ہے۔''
بھارتی حکومت نے گزشتہ ستمبر میں ان متنازعہ ذرعی قوانین کو وضع کیا تھا اور اس کا موقف تھا کہ یہ قوانین جلد بازی میں نہیں وضع کیے گئے بلکہ گزشتہ دو عشروں کی غور وخوض کا نتیجہ ہیں اس لیے عدالت ان کے خلاف حکم امتناع سے گریز کرے۔ تاہم عدالت نے صورت حال کی سنگینی کے مد نظرحکومت کے موقف کو مسترد کر دیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ وہ اس مسئلے کا دیرینہ حل چاہتی ہے اسی لیے اس نے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ''ہمیں آپ اس کمیٹی سے متعلق نام دیجئے اور ہم پھر ہم فیصلہ کریں گے۔'' اطلاعات کے مطابق عدالت کی تشکیل کردہ اس کمیٹی میں کسان تنظیموں سمیت حکومت کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔
ہزاروں بھارتی کسانوں کا احتجاج
بھارتی شہر ممبئی میں ہزاروں کسانوں نے حکومت سے قرضوں کی معافی ، فصلوں کی بہتر قیمتوں اور کاشت کرنے والی سرکاری زمین کے حوالے سے حقوق کے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کیا۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/R. Choudhary
سرخ پرچموں کا سمندر
سرخ ٹوپیاں پہنے اور ہاتھوں میں سرخ پرچم تھامے بھارتی کسان ممبئی سے 165 کلو میڑ دور واقع علاقے ناشک سے چھ دن کی پیدل مسافت طے کرتے ہوئے ممبئی پہنچے۔ ان کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ مارچ کی گرمی میں کئی کسان ننگے پاوں یہاں تک پہنچے ہیں۔
تصویر: REUTERS
حکومت سے امداد کا مطالبہ:
کسان چاہتے ہیں کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ فصل کی پیداوار پر جو لاگت آئی ہے، کسانوں کو کم از کم اس لاگت سے ڈیڑھ گنا زیادہ منافع ملے۔اس کے علاوہ زرعی اراضی پر تمام قرضہ جات معاف کیے جائیں۔ ان مظاہرین میں کئی ایسے افراد بھی ہین جو کئی نسلوں سے اس زمینوں پر کاشت کر رہے ہیں جو ان کی اپنی نہیں۔ یہ کسان چاہتے ہیں کہ ان زمینوں پر ان کی ملکیت تسلیم کی جائے۔
تصویر: AFP/Getty Images
مسئلے کے حل کی کوشش:
مہاراشٹر حکومت کے مطابق یہ ان مطالبات پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس مہاراشٹر کے چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ کسانوں کو دیے جانے والے 305 بلین روپے کے قرضے معاف کر دیے جائیں گے۔
تصویر: P. Paranjpe/AFP/Getty Images
زراعتی بحران
مہاراشٹر بھارت کی سب سے اہم زرعی ریاست ہے۔ حالیہ برسوں میں اسے ناکافی بارشوں اور شدید خوشک سالی کے باعث فصلوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف 2017 میں حالات سے تنگ آکر تقریبا 2500 کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ تاہم یہ مسائل صرف مہاراشٹر تک محدود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بے چینی میں اضافہ:
رواں برس کسانوں کی بے چینی میں بے حد اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ملک کی مختلف ریاستوں میں ان کی جانب سے پچھلے کئی مہینوں نے مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ان کا حکومتی امداد کا مطالبہ بھی شدت پکڑتا جا رہے ہے۔
تصویر: AP
ناکافی کمائی:
بھارتی کسانوں کی ایک بڑی تعداد کم قیمت پر پیداوار کی فروخت اور مسلسل بڑھتے واجب الادا سودی قرضوں کے باعث سخت پریشان ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت چاول اور گندم کے علاوہ دیگر زرعی پیداوار کی خرید انتہائی کم قیمت پر کرتی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بڑا چیلنج:
کسانوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مودی کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے پانچ برسوں میں کسانوں کی آمدنی دگنی کر دیں گے۔ اگر اس وعدے پر عمل نہ کیا گیا تو کسانوں کا یہ احتجاج مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
7 تصاویر1 | 7
عدالت نے کسان تنظیموں کی جانب سے آئندہ 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی کرنے کے سلسلے میں کسان یونین کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔ دھرنے پر بیٹھے کسانوں نے مطالبات نہ تسلیم کرنے کی صورت میں یوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں ایک بڑی ٹریکٹر ریلی کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ اس ریلی پر روک لگانے میں حکومت کی مدد کرے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کاشتکاری سے متعلق متنازعہ قوانین کے خلاف متعدد درخواستوں پر سماعت کے دوران کہا تھا کہ جس انداز سے کسان تنظیموں اور حکومت کے درمیان بات چیت کی پیش رفت ہوئی ہے اس پر اسے کافی مایوسی ہے اور عدالت اب خود جلد ہی اس پر فیصلہ سنائے گی۔
عدالت عظمی نے مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ جب تک ان قوانین سے متعلق ماہرین کی کمیٹی کی رپورٹ تیار نہیں ہو جاتی اس وقت تک ان قوانین کو موخر کرنے کی ضرورت ہے۔ ''لیکن ہمیں آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ آپ کھیتی سے متعلق ان قوانین کو خود روکتے ہیں یا پھر ہم خود ایسا کریں۔''
کئی تنظیموں نے ان قوانین کو عدالت میں چیلنج کیا تھا جس پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اگر وہاں کچھ بھی غلط ہوا تو اس کے لیے، ''ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔ ہم کسی زخم یا پھر خون کا الزام اپنے ہاتھ نہیں لینا چاہتے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ آپ اس معاملے سے موثر انداز میں نمٹ رہے ہیں۔ ہم اس پر آج ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ اگر تشدد برپا ہوا تو اس کی ذمہ داری کون لیگا؟"
بھارت میں متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک سے پیدا شدہ بحران کو ختم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ کئی ادوار کی بات چیت اب تک ناکام رہی ہے اور فریقین کے اپنے اپنے موقف پر مُصر رہنے کی وجہ سے تعطل ہنوز برقرار ہے۔ دھرنے پر بیٹھے اب تک چالیس سے زیادہ کسان ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زبردست سردی اور بارش کے سبب میدان میں بیٹھے مظاہرین کے لیے مشکلیں بڑھتی جا رہی ہیں۔
تاہم عدالت عظمی کے اس فیصلے کے بعد اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ دہلی کی سرحد پر جاری کسانوں کا دھرنا فی الوقت ٹل جائے۔ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے کسان ذرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہزاروں کسان قومی دارالحکومت میں داخل ہونے والی پانچ سرحدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
بھارت: کسانوں کا حکومت مخالف احتجاج جاری
بھارت کے متنازعہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ کسانوں نے قومی دارالحکومت کی سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن تعطل برقرار ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہار نہیں مانیں گے
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
امید باقی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت نئے سیاہ قوانین واپس لے گی اور یہ احتجاج حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم دہشت گرد نہیں
کسانو ں کی اس غیر معمولی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ مظاہرین نے 'خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بعدازاں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
تصویر: Mohsin Javed
نوجوانوں کی امنگیں
مظاہرے میں بڑی تعداد میں نوجوان بھی موجود ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ اور مغربی ممالک سے واپس لوٹ کر زراعت کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین بھی شانہ بشانہ
اس مظاہرے میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ان کا جوش و خروش قابل دید ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
زخمی مظاہرین
حکومت نے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے۔ اس دوران آنسو گیس کے شیل لگنے سے کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
مظاہرین کی آمد کا سلسلہ جاری
ملک کے مختلف حصوں سے مرد اور خواتین کسانوں کے قومی دارالحکومت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ملک بھر کے کسان شامل
مودی حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک ہے لیکن متعدد ریاستوں کے کسانوں اور مختلف تنظیموں نے اس میں اپنی شمولیت کا ثبوت پیش کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
جنگ جاری رہے گی
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی، جب تک مزدور کسان استحصال کا شکار ہیں۔" بھگت سنگھ
تصویر: Mohsin Javed
کھانے کی تیاری
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی تیاری کرکے آئے ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے کسان رہنمااپنا کھانا بھی ساتھ لے کر گئے تھے اور حکومتی ضیافت کو ٹھکرا دیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ذرا تازہ دم ہوجاوں
مظاہرین کی خدمت کرتے کرتے تھک کر ایک کسان تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
ماں کا آغوش
کسان زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور نیند کے لیے ماں کے آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
حالات سے باخبر
دھرنا اپنی جگہ، لیکن 'دیش اور دنیا‘ کے حالات سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
علم کا کوئی بدل نہیں
مظاہروں کے ساتھ ساتھ حصول علم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے 'روڈ لائبریری‘ بھی قائم کررکھی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ڈاکٹر اور دوائیں بھی دستیاب
مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد کے لیے صرف کھانے پینے کا ہی نظم نہیں ہے بلکہ کسانوں نے ان کی صحت کی دیکھ بھال کا پورا انتظام بھی کررکھا ہے۔ درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملہ رضاکارانہ طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصرو ف ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے تمام سرحدو ں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کررکھے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال دہلی میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
کنگنا رناوت پھنس گئیں
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے مظاہرین کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کنگنا نے گو اپنا ٹوئٹ واپس لے لیا ہے لیکن مظاہرین اب بھی ناراض ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'گودی‘ میڈیا سے ناراضگی
کسان حکومت نواز میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔انہوں نے ایسے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا‘ حکومت نواز میڈیا کو کہتے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'سوچھ بھارت‘
وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم 'سوچھ بھارت‘ کی عملی تصویر۔ کسان خود ہی صفائی ستھرائی بھی کررہے ہیں۔
ٹیکسٹ: جاوید اختر تصاویر: محسن جاوید