1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ علاقے کی ایک غار کی ہندو زیارت میں اضافہ

28 جولائی 2019

بھارت متنازعہ علاقے کشمیر کے برف پوش پہاڑوں میں واقع ہندوؤں کے لیے مقدس ایک غار کی بطور ایک مذہبی زیارت گاہ کے طور پر مقبولیت کے لیے کوشاں ہے۔ اسے مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/Str

بھارت اور پاکستان کشمیر کے متنازعے خطے پر اپنا حق جتاتے ہیں اور اس سلسلے میں جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ رواں برس فروری میں ایٹمی قوت رکھنے والے یہ دونوں ملک ایک اور جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے جب بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ایک خودکش کار بم حملے کے بعد بھارت نے پاکستانی علاقے بالاکوٹ میں ایک فضائی کارروائی کی تھی۔

ہندو زیارت گاہ تک جانے والے اس راستے پر ہونے والے کار بم حملے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے 40 سے زائد اہلکار مارے گئے تھے۔ اب نریندر مودی کی سربراہی میں قوم پرست بھارتی حکومت ملک میں ہندو مذہبی سیاحت بڑھانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں کافی زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

اس سیاحتی سلسلے کی ایک کڑی کمبھ کا میلہ بھی ہے جس میں کروڑوں لوگ شرکت کرتے ہیں اور ہندوؤں کے لیے مقدس دریائے گنگا کے پانی میں نہاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک زیارت گاہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں بھی ہے، جو امرناتھ کی گُپھا (غار) کے نام سے مشہور ہے۔

امرناتھ یاترا کی تیاری کے لیے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے رواں برس 72 ملین ڈالرز کے برابر رقم خرچ کی ہے۔ چھ ہفتوں پر مشتمل یہ مذہبی ایونٹ یکم جولائی کو شروع ہوا تھا۔

ہندو زائرین جن میں سے کئی پیدل ہی یہ سفر طے کرتے ہیں، 46 کلومیٹر طویل دشوار گزار راستہ طے کر کے امرناتھ غار تک پہنچتے ہیں۔ تصویر: Getty Images/AFP/M. Tauseef

امرناتھ جی زیارت گاہ کے معاملات چلانے والے بورڈ کے ایڈیشنل چیف ایگزیکٹیو انوپ کمار سونی کے مطابق، ''یہ مذہبی رواداری کی ایک بہترین مثال ہے۔‘‘ قریب پورا سال برف میں میں ڈھکی رہنے والی امرناتھ غار میں ایک پتھر موجود ہے جسے ایک ہندو بھگوان شیو کے ظہور کا ایک طبعی نشان قرار دیا جاتا ہے۔

زعفرانی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہندو زائرین جن میں سے کئی پیدل ہی یہ سفر طے کرتے ہیں، 46 کلومیٹر طویل دشوار گزار راستہ طے کر کے امرناتھ غار تک پہنچتے ہیں۔ اس دوران مسلمان کشمیری راستے سے برف ہٹا کر ہندو زائرین کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں جبکہ مسلمان شدت پسندوں کے کسی ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لیے ہزاروں بھارتی فوجیوں کو اس راستے پر تعینات کیا جاتا ہے۔

اس دشوار گزار راستے پر سفر کرنے والے قریب تین لاکھ ہندو زائرین میں سے ہر چار میں سے ایک کو طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق رواں برس 24 زائرین اس راستے پر ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی موت دل کے دورے کے سبب ہوئی۔

شدت پسندوں کے کسی ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لیے ہزاروں بھارتی فوجیوں کو امرناتھ یاترا کے اس راستے پر تعینات کیا جاتا ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/M. Tauseef

ہزاروں کشمیری اس غار تک جانے والے راستے کو صاف کرنے میں مصروف ہوتے ہیں تو ہزاروں دیگر اپنے خچر اور دیگر ساز و سامان زائرین کو کرائے پر بھی فراہم کرتے ہیں۔ ابھیناؤ نامی ایک ہندو زائر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''یہاں ہر کوئی ہمیشہ بہت مدد گار ہوتا ہے اور یہاں کوئی مذہبی نفرت دکھائی نہیں دیتی۔‘‘

پہلگام کے علاقے میں آباد بہت سے کشمیری خاندانوں کے لیے معاشی حوالے سے امرناتھ یاترا انتہائی اہم ہے۔ یہاں آباد فیروز احمد وانی کے بقول اس علاقے میں پرائیویٹ سیکٹر موجود نہیں لہٰذا پہلگام کے بہت سے پڑھے لکھے نوجوانوں کا روزگار امرناتھ یاترا کے ساتھ منسلک ہے۔

کمبھ کا میلہ: دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع

01:36

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / ع ح (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں