بھارت: مریض کے سر کے نیچے اُسی کی کٹی ٹانگ کا تکیہ
اے ایف پی
11 مارچ 2018
انڈیا میں ہسپتال کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ بھارتی حکام نے دو ڈاکٹروں کو ایک مریض کے سر کے نیچے حادثے میں الگ ہوئی اُسی کی ٹانگ کو تکیے کے طور پر استعمال کرنے کی خبر پر معطل کر دیا ہے۔
اشتہار
بھارتی ریاست اتر پردیش کے ایک سرکاری ہسپتال میں حکام نے ایسی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد سخت کارروائی کا حکم دیا ہے جن میں اسٹریچر پر لیٹے ہوئے ایک مریض کے سر کے نیچے خود اُسی کی ٹانگ کو بطور تکیہ استعمال کیا جا رہا تھا۔ حکام کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
جھانسی میں مہارانی لکشمی بائی میڈیکل کالج اور ہسپتال کی پرنسپل سادھنا کاؤشک نے اے ایف پی کو بتایا،’’ اگر ہمارے ہسپتال کے عملے میں سے کوئی شخص اس حرکت میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘
سادھنا کاؤشک نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں تحقیقات مکمل ہونے تک دو ڈاکٹروں کی معطل کر دیا گیا ہے۔ جس اٹھائیس سالہ مریض کے سر کے نیچے تکیے کی جگہ اس کی ٹانگ رکھی گئی تھی، اس کا نام گھنشیام ہے اور وہ ایک بس ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہو کر ہسپتال پہنچا تھا۔
گھنشیام کے رشتہ داروں نے بھارتی چینل این ڈی ٹی وی نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ انہوں نے کئی بار ہسپتال کے عملے سے گھنشیام کو تکیہ فراہم کرنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے سنی ان سنی کر دی۔
گھنشیام کی رشتہ دار خاتون جانکی پرشاد نے این ڈی ٹی وی کو بتایا،’’ جب ہم ہسپتال پہنچھے تو دیکھا کہ اسکی ٹانگ کو تکیے کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ آخر ہم قریب کی مارکیٹ سے تکیہ خرید کر لائے۔‘‘
دوسری جانب پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق سادھنا کاؤشک کا موقف ہے کہ گھنشیام کو فوری طبی امداد دی گئی تھی اور اُس کے رشتہ داروں میں سے کسی نے اُسکے سر کے نیچے ٹانگ رکھ دی تھی۔
دو سو ملین آبادی والی بھارتی ریاست اتر پردیش انڈیا کے اقتصادی لحاظ سے غریب ترین صوبوں میں سے ایک ہے اور یہاں معمولی علاج کے لیے بھی لوگوں کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ابوظہبی: جرمن ڈاکٹر کے زیر انتظام چلنے والا شاہینوں کا ہسپتال
متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ایک جرمن ماہر حیوانات مارگِٹ میولر شاہینوں کے ایک ہسپتال کی سربراہ ہیں۔ وہ ایسے پرندوں کا خیال رکھتی ہیں جو اس عرب ملک کے مردوں کا بہترین مشغلہ اور تفریح کا ذریعہ ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
ابوظہبی میں شاہینوں کا ہسپتال
ہسپتال میں داخل ہوتے ہی آپ کا استقبال شاہین کا لکڑی سے بنا ایک بڑا مجسمہ کرتا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ جگہ شکاری پرندوں کی آماجگاہ ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
پروں والے مریضوں کا کمرہ انتظار
یہ مریض 20 سینٹی میٹر لمبے لکڑی کے ایک ایسے ڈنڈے پر بیٹھے ہیں جس پر مصنوعی گھاس بھی لپٹی ہے۔ ان کی آنکھوں پر چمڑے کا بنا ایک خول بھی چڑھا رہتا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
ہسپتال کا کاروبار چمکتا ہوا
شاہینوں کے اس ہسپتال میں سالانہ قریب 11 ہزار پرندوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ 1999ء میں اس ہسپتال کے قیام سے لے کر یہ اب تک قریب 75 ہزار شاہینوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
شاہینوں کی ماہر
اماراتی باشندے جرمنی سے تعلق رکھنے والی ماہر حیوانات مارگِٹ میولر کو ’’ڈوکٹورا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ 49 سالہ میولر 2001ء سے اس ہسپتال کی سربراہ ہیں۔ شاہینوں کی یہ ماہر اب صرف متحدہ عرب امارات ہی نہیں بلکہ اپنے شعبے میں دنیا بھر میں شہرت حاصل کر چکی ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
چھوٹے چھوٹے مریضوں کے لیے چھوٹی مشینیں
یہ مشینیں ابتدائی طور پر بچوں کے ہسپتال سے لی گئیں کیونکہ یہ پرندوں کے لیے مناسب سائز کی ہیں۔ مثال کے طور پر قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی نگہداشت کے لیے استعمال ہونے والے یہ انکیوبیٹر۔
تصویر: DW/M. Marek
ایک شاہین کی سرجری
یہ شاہین آپریشن ٹیبل پر سکون سے پڑا ہے۔ سرجری کرنے والے آلات بنیادی نوعیت کے ہیں جو اس پرندے کے آپریشن کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
مصنوعی پر
ہسپتال کا ایک کمرہ متبادل پروں سے بھرا ہوا ہے جس میں ان پروں کو سائز اور رنگ کے حساب سے ترتیب میں رکھا گیا ہے۔ اگر کسی باز یا شاہین کا کوئی پر ٹوٹ جائے تو اس کی جگہ ان مصنوعی پروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک نئے پر کو گِر جانے والے پر کی جگہ لگا دیا جاتا ہے اور اس طرح یہ پرندہ پھر سے پرواز کے قابل ہو جاتا ہے۔ جب اصل پر دوبارہ نکل آتا ہے تو مصنوعی پر کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
جرمنی سے متحدہ عرب امارات تک
مارگِٹ میولر جرمن شہر اُلم کے قریب پیدا ہوئیں اور جرمنی ہی میں انہوں نے وٹرنری کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنا ڈاکٹریٹ کا تھیسس فالکن یا شاہینوں کے پروں کی ایک بیماری پر لکھا۔ اس کے بعد وہ عملی تربیت کے لیے دبئی چلی گئیں۔ ان کے کام کو اس حد تک پسند کیا گیا کہ انہیں ابوظہبی میں شاہینوں کے علاج کا ایک ہسپتال بنانے کی آفر کر دی گئی۔
تصویر: DW/M. Marek
قیمتی پرندے
ایک فالکن کی انڈواسکوپی پر قریب 70 یورو کا خرچ آتا ہے یہ رقم پاکستانی ساڑھے آٹھ ہزار روپے کے قریب بنتی ہے۔ بڑے آپریشن ظاہر ہے کہ بہت زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ لہذا شاہین یا فالکن پالنا کوئی سستا شوق نہیں ہے۔جو لوگ باز رکھتے ہیں انہیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ اس پرندے کے علاج اور اس کا خیال رکھنے پر 300 سے 400 یورو ہر مہینے درکار ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
آپ کا پاسپورٹ پلیز!
متحدہ عرب امارات میں ہر باز یا شاہین کا الگ سے پاسپورٹ بھی ہوتا ہے جس میں اس پرندے کے بارے میں اہم معلومات اور مالک کا نام درج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پرندے کے جسم پر لگائی گئی مائیکرو چپ کا 13 حروف پر مشتمل ایک کوڈ بھی درج ہوتا ہے۔ تاہم اس پاسپورٹ میں تصویر موجود نہیں ہوتی۔
تصویر: DW/M. Marek
سیاحوں کے لیے ایک کشش
2007ء کے بعد سے سیاح بھی اس ہسپتال کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اس ہسپتال میں ایک میوزیم بھی قائم ہے جس سے سیاحوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پرندہ خلیجی ممالک میں اتنا اہم کیوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فالکن ہسپتال ابوظہبی کی 10 اہم سیاحتی دلچسپیوں میں شامل ہے۔