بھارتی ریاست مہاراشٹر کے پونے شہر میں مسلمانوں نے جذبہ خیرسگالی کے تحت ایک مسجد کو کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے قرنطینہ کے طور پر استعمال کرنے کی پیشکش کی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
اشتہار
مسجد کے ذمہ داران اور مقامی انتظامیہ کے کووڈ انیس کے خلاف جنگ میں متحد ہوکر مقابلہ کرنے کے فیصلے کے تحت پونے شہر کے تعلیمی مرکز اعظم کیمپس میں واقع ایک مسجد کو قرنطینہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
پونے کے مضافاتی علاقے بھوانی پیٹھ نان پیٹھ میں کورونا وائرس کے کافی کیسز سامنے آئے ہیں اور اسی علاقے کے کیمپ ایریا میں ایجوکیشنل ٹرسٹ اعظم کیمپس بھی واقع ہے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اعظم کیمپس کے ذمہ داران نے مسجد کو ان افراد کو قرنطینہ کے لیے پیش کیا جن پر وائرس سے متاثر ہونے کا شبہہ ہے۔ مسجد میں ایسے کم از کم پچاس افراد کو الگ تھلگ رکھے کی گنجائش ہے۔
'حاجی محمد غلام اعظم ایجوکیشن ٹرسٹ' کے صدر ڈاکٹر پی اے انعام دار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا اور جیسے ہی مقامی انتظامیہ نے اس کی اجازت دی مسجد کے فرش کو اس کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم نے مسجد میں قرنطینہ کیے گئے افراد کو کھانا پانی بھی مہیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کورونا عالمی بحران ہے اور ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں میں ہمیں اپنا رول بھی ادا کرنے ضرورت ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جب ہمیں اپنے وسائل کو بھی حکومت کے حوالے کرنا چاہیے۔''
مسٹر انعام دار نے بتایا کہ یہ وقت اسلام کی اصل باتوں پر عمل کرنے کا ہے اور انسانیت کی خدمت سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے۔ ''پہلے مسجدیں عبادت کے ساتھ ساتھ تمام چیزوں کے لیے استعمال ہوتی تھیں اور یہ وقت ہے کہ ہم جتنا ممکن ہوسکے ایک دوسرے کی مدد کریں اور اسی کے مد نظر ہم نے انتظامیہ کو ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی ہے۔''
تصویر: DW/Syamantak Ghosh
ٹرسٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے مسجد اور ٹرسٹ کے احاطے میں دیگر مقامات پر قرنطینہ کیے گئے تمام افراد کو تین وقت کا کھانا، بجلی، پانی اور پارکنگ جیسی تمام سہولیات مفت میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اعظم ٹرسٹ کے سابق چیئرمین منور پیر بھائی نے ڈی ڈبلیو کو اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ٹرسٹ نے مقامی انتظامیہ کو مسجد فراہم کی ہے اور باقی کے تمام فیصلے ضلع کلکٹر کی ذمہ داری ہے اور وہ اپنی سہولت کے حساب سے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''چونکہ مسجد میں خواتین کا قرنطینہ ایک مسئلہ تھا اس لیے ٹرسٹ نے اپنا ایک یونانی طبی کالج بھی انتظامیہ کو سونپ دیا ہے۔ طبیہ کالج میں ڈیرھ سو بیڈ ہیں لیکن کورونا کے مریضوں کے لیے اس میں تبدیلی کی گئی ہے اور پچاس افراد کو الگ تھلگ رکھنے کی سہولت ہے۔ اس میں کووڈ 19 کی مشتبہ کئی خواتین کو رکھا گیا ہے۔''
جمعیت علما ء ہند نے مسلمانوں کی جانب سے اس طرح کی کوششوں کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں سب کو تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے سکریٹری نیاز فاروقی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں بتایا کہ جمعیت علماء ہند نے چند روز قبل وزیر اعظم نریندر
مودی کے نام اپنے ایک خط میں ایسے دس ہزار افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کی سہولت مہیا کرنے کی بات کہی تھی اور یہ کام جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''ہم نے ان تمام مسلم تنظیموں سے بھی درخواست کی ہے جن کے پاس بھی مساجد یا مدارس کی شکل میں ایسی سہولیات ہوں وہ آگے آئیں اور اس مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں۔ جمعیت نے ایسی کئی جگہیں فراہم کر رکھی ہیں جہاں بہت سے لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے اور یہ بہت اچھی پہل ہے۔'' انہوں نے بتایا کہ مسلم تنظیمیں اس سلسلے میں اپنی حیثیت کے مطابق طبی سہولیات، آلات اور دیگر بہت سی چیزیں فراہم کر رہی ہیں۔
شہريت سے متعلق نيا بھارتی قانون مذہبی کشيدگی کا سبب
بھارت ميں منظور ہونے والے شہريت ترميمی بل کے ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ نيا قانون سيکولر اقدار اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس قانون کی مخالفت ميں جاری ملک گير احتجاج دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Solanki
بھارت کے کئی علاقوں ميں انٹرنيٹ سروس معطل
رواں سال کے اواخر ميں ستائيس دسمبر کے روز بھارتی حکومت نے ملک کے کئی حصوں ميں سکيورٹی بڑھانے اور انٹرنيٹ کی ترسيل بند کرنے کے احکامات جاری کيے۔ شمالی رياست اتر پرديش ميں بھی اب انٹرنيٹ کی سروس معطل ہے۔ خدشہ ہے کہ شہريت ترميمی بل کی مخالفت ميں مظاہروں کی تازہ لہر شروع ہونے کو ہے۔ يہ متنازعہ بل گيارہ دسمبر کو منظور ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Khan
بھارتی سيکولر آئين کا دفاع
بھارت ميں منظور ہونے والا نيا قانون پاکستان، بنگلہ ديش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں، سکھوں، پارسيوں، بدھ، جين اور مسيحيوں کے ليے بھارت ميں ’فاسٹ ٹريک‘ شہريت کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ قانون مسلمانوں کے حوالے سے امتيازی ہے اور مذہب کی بنياد پر شہريت دينا بھارت کی سيکولر اقدار کی خلاف ورزی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Boro
شہريت ثابت کرنے سے متعلق متنازعہ پروگرام
بھارتی حکومت ايک اور منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت بغير دستاويزات والے غير قانونی مہاجرين کو نکالا جا سکے گا۔ ناقدين کو خدشہ ہے کہ اگر ’نيشنل رجسٹر آف سيٹيزنز‘ پر ملک گير سطح پر عملدرآمد شروع ہو جاتا ہے، تو بھارت کے وہ شہری جو اس منصوبے کی شرائط کے تحت اپنی شہريت يا بھارت سے تعلق ثابت کرنے ميں ناکام رہے، ان کی شہريت ختم کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/S. Sen
آزاد خيال دانشور حکومتی پاليسيوں سے نالاں
بھارت میں کئی آزاد خيال دانشور نئے قانون اور ’نيشنل رجسٹر آف سيٹيزنز‘ پر کھل کر تنقيد کر رہے ہيں۔ ان ميں معروف مصنفہ ارندھتی رائے پيش پيش ہيں۔ قدامت پسند سياستدان اور سابق کامرس منسٹر سبرامنين سوامی نے ارندھتی رائے کی گرفتاری کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
بھارتی طلباء متحرک
بھارت کے متعدد شہروں کی ان گنت يونيورسٹيوں کے طلباء نے تازہ اقدامات کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ ملک گير سطح پر جاری مظاہروں ميں کئی طلباء تنظيميں سرگرم عمل ہيں۔ نوجوان نسل اپنا پيغام پہنچانے اور لوگوں کو متحرک کرنے کے ليے سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کا بھی سہارا لے رہے ہيں۔
تصویر: DW/A. Ansari
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی
بھارتی حکام نے احتجاج کچلنے کے ليے ہزاروں پوليس اہلکاروں کو تعينات کيا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور مظاہرين کے درميان جھڑپوں ميں اب تک پچيس سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ بھارتی آرمی چيف نے بھی احتجاجی مظاہروں ميں طلباء کی شموليت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: AFP/B. Boro
ہندو قوم پرست اب بھی اپنے موقف پر قائم
تمام تر مخالفت اور احتجاج کے باوجود وزير اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتيہ جنتا پارٹی اب بھی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ پارٹی رہنماوں کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو غلط معلومات فراہم کی گئی ہيں اور لوگوں کو قانون کا مطلب نہيں معلوم۔ بی جے پی احتجاجی ريليوں کا الزام حزب اختلاف کی جماعت کانگريس پر عائد کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
شہريت ترميمی بل کے حامی
راشتريہ سوايمسيوک سانگھ يا آر ايس ايس انتہائی دائيں بازو کی ايک ہندو قوم پرست جماعت ہے۔ بی جی پی اسی جماعت سے نکلی ہے۔ آر ايس ايس کے کارکن بھی اس متنازعہ قانون کے حق ميں سڑکوں پر نکلے ديکھے گئے ہيں۔