بھارت میں برقعہ کے معاملے پر جاری سیاست کے درمیان جنوبی صوبہ کیرالا میں ایک اہم مسلم تنظیم نے اپنے تعلیمی اداروں میں طالبات کے چہرہ ڈھکنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
اشتہار
متعدد تنظیمیں اور جماعتیں تاہم اس فیصلے کو بھارتی آئین کے تحت شہریوں کو حاصل آزادی کے منافی قرار دے رہی ہیں۔
کیرالا کی مسلم ایجوکیشن سوسائٹی (ایم ای ایس) نامی تنظیم نے ایک سرکلر جاری کر کے کہا ہے کہ سوسائٹی کے زیر انتظام چلنے والے کسی بھی تعلیمی ادارہ کے کیمپس میں چہرہ ڈھکنے والا کوئی بھی لباس پہن کر آنا ممنوع ہے۔ یہ فیصلہ سال 2019-20 کے لیے اگلے ماہ شروع ہونے والے تعلیمی سال سے نافذ ہوجائے گا۔ سرکلر میں کہا گیا ہے، ”برقعہ پہن کر آنے والی طالبات کو کلاس میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی طالبہ برقعہ پہن کر نہ آئے۔"
ایم ای ایس کے زیر انتظام کیرالہ میں ڈیڑھ سو سے زائد تعلیمی ادارے سرگرم ہیں۔ ان میں میڈیکل اور انجینیئرنگ سمیت دس پروفیشنل کالج اور تقریباً دو درجن سائنس اور آرٹس کے کالج شامل ہیں۔ ان میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میں طالبات کی تعداد تقریباً 65 ہزار ہے۔
مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر پی اے فضل غفور نے اس حکم پر پیدا تنازعے کے بعد کہا، ”اس فیصلے کا کولمبومیں ایسٹر کے موقع پر ہوئے خود کش بم دھماکوں کے بعد سری لنکا کی حکومت کی جانب سے چہرہ کو ڈھانکنے پر پابندی کے حکم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ برس دسمبر میں کیرالا ہائی کورٹ نے ایک مسیحی اسکول کی طرف سے مسلم طالبہ کو برقعہ پہننے کی اجازت نہ دینے کے خلاف دائر عرضی کو مسترد کردیا تھا۔ ڈاکٹر غفور کا مزید کہنا تھا، ”برقعے کا اسلامی احکامات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کیرالا میں تو تقریباً 25 برس قبل تک اس کا کوئی رواج بھی نہیں تھا۔ یہ ایک غیر ملکی لباس ہے۔ یہ اسلام کا حصہ نہیں بلکہ عرب ثقافتی حملہ کا حصہ ہے اور یہ عام طور پر مسلم خواتین کو اصل سماجی دھارے سے الگ تھلگ کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔"
ماہر اسلامیات اور سنٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ایمریٹس پروفیسر اختر الواسع تاہم اس دلیل سے متفق نہیں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”یہ کام حکومتوں،سیاسی جماعتوں یا تنظیموں کا نہیں ہے کہ وہ عورتوں کو یہ ہدایت دیں یا ان پر دباؤ بنائیں کہ وہ برقعہ کا استعمال کریں یا نہ کریں۔ ہمارا ملک ایک ثقافتی اور تہذیبی تنوع کا ملک ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ یہ ہر انسان کو آزادی اور خود مختاری عطا کرتا ہے۔ اس لیے یہ حکم جاری کرنا یا مشورہ دینا بالکل درست نہیں ہے کہ ہماری غذا اور لباس کے سلسلے میں کیا ترجیحات ہونی چاہئیں۔"
کیرالا میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمیت کیرالا سنی یوواجن سنگم (ایس وائی ایس) نے بھی مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے فیصلے کو غیر ضروری قرا ردیتے ہوئے اسے فرد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ایس وائی ایس کا کہنا ہے، ”بھارتی آئین نے لباس کے انتخاب کی جو آزادی دی ہے یہ حکم اس آئینی ضمانت کے خلاف ہے۔“
ایس وائی ایس کی دلیل ہے کہ ”کیا ہیلمٹ پہننے پر صرف اس بنیاد پر پابندی عائد کردینی چاہیے کہ مجرم اپنی شناخت چھپانے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی آزادی پر قطعی پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے۔"
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/M. Kalandarov
10 تصاویر1 | 10
واضح رہے کہ سری لنکا میں خواتین کے چہرہ ڈھکنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد بعض شدت پسند ہندو جماعتیں بھارت میں بھی اسی طرح کا حکم نافذ کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حلیف شیو سینا جماعت نے مطالبہ کیا کہ بھارت میں بھی سری لنکا کی طرح ہی برقعہ پر پابندی عائد کردینی چاہیے۔ شیو سینا کے اخبار ’سامنا‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا، ”مودی کو برقعہ اور حجاب پر پابندی عائد کرنے کے لیے ’سرجیکل اسڑائیک‘ جیسا جرأت مندانہ قدم اٹھانا چاہیے۔"
مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے، ”جوکچھ سری لنکا میں ہوا اور دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کے نام پر ہو رہا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے لیکن اس کا تعلق برقعہ سے جوڑنا بڑی شرمناک کوشش ہے۔ ایک مخصوص مذہب کو پہلے عقائد کی بنیاد پر اور اب نقاب کی بنیاد پر نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔“ ان کا مزید کہنا تھا، ”جو عورتیں برقعہ میں ہوتی ہیں اور ہوائی اڈوں پر یا دیگر مقامات پر خواتین سکیورٹی اہلکار ان کی جانچ کرتی ہیں اس پر ہمیں کبھی کوئی اعتراض نہیں۔ دہشت گردی سے تحفظ حاصل کرنا سب کا حق ہے اس لیے ہم تحفظ کو یقینی بنانے کے بالکل خلاف نہیں ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کو پہلے اسلامی عقائد سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور جب اس میں ناکامی ہاتھ لگی تو اب لباس سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔"
ممبر پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بھی ایم ای ایس کے حکم نامہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ”بھارتی آئین کے مطابق ہر شخص کو اپنی پسند کے مطابق لباس پہننے کا حق حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی واضح لفظوں میں کہا ہے کہ کون کیا پہننا چاہتا ہے، یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ اگر ہر کوئی اسی طرح کا حکم دیتا رہے تو کل کو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ کے چہرے پر داڑھی ٹھیک نہیں ہے، ٹوپی مت پہنیے۔"
برقعہ، حجاب اور نقاب، اسلام میں پردے کے مختلف رنگ
مذہبِ اسلام میں مسلمان عورتوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ایک عورت کو کتنا پردہ کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے مسلمان علماء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ چند مذہبی ملبوسات اس پکچر گیلری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
حجاب
زیادہ تر علما کی رائے میں حجاب جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے، عورتوں کو پہننا لازمی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں کے حجاب پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
چادر
کئی مسلم ممالک میں چادر خواتین کے لباس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ، اور کچھ دیگر علاقوں میں عورتیں گھروں سے باہر چادر پہنے بغیر نہیں نکلتیں۔ چادر زیادہ تر سفید یا کالے رنگ کی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نقاب
نقاب عورت کے چہرے کو چھپا دیتا ہے اور صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ کئی مرتبہ نقاب کا کپڑا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ عورت کی چھاتی اور کمر بھی ڈھک جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
عبایا
عبایا ایک کھلی طرز کا لباس ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ مختلف موقعوں پر مختلف طرح کے عبایا پہنے جاتے ہیں۔ ان میں دیدہ زیب کڑھائی والے اور سادے، دونوں طرح کے عبایا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Haider
برقعہ
برقعہ بھی عبایا کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں ’ٹوپی برقعہ‘ پہنا جاتا ہے جس میں عورتیں آنکھوں کے سامنے والے کپڑے میں کچھ سوراخوں سے ہی باہر دیکھ سکتی ہیں۔
تصویر: AP
کوئی پردہ نہیں
بہت سی مسلمان عورتیں اپنے سر کو حجاب سے نہیں ڈھکتیں اور جدید ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔