بھارت میں رواں برس کے ابتدائی تین مہینوں میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پرہونے والے پرتشدد حملوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
اشتہار
مسیحیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم یونائٹیڈ کرسچین فورم ان انڈیا (یو سی ایف) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں برس کے ابتدائی تین مہینوں میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد اور شدت دونوں لحاظ سے کافی اضافہ ہوا ہے۔
یو سی ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوری اور مارچ 2020 کے درمیان مسیحیوں پر تشدد کے 78 واقعات پیش آئے جبکہ صرف مارچ میں ہی ایسے 27 پرتشدد واقعات کی رپورٹیں درج کرائی گئیں۔
یوسی ایف کا کہنا ہے کہ یہ حملے اترپردیش، چھتیس گڑھ، تمل ناڈو، اوڈیشا، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، تلنگانہ اور گوا میں ہوئے۔ اور بیشتر معاملات میں حملہ آوروں نے چرچ میں عبادت کے دوران مسیجیوں کو نشانہ بنایا۔
رپورٹ میں متعدد حملوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ 12 مارچ کو حملہ آوروں نے ایک پادری اور اس کے چھ سالہ بیٹے پر اس لیے حملہ کردیا کیوں کہ وہ ایک گھر میں تعمیر گرجا گھر کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ حملہ آوروں نے پادری کو اپنی آٹھ سالہ بیٹی کے مبینہ طور پر کپڑے اتارنے پر مجبور کیا اور ایسا نہ کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی۔
15مارچ کو اترپردیش کے کنڈا تھانہ میں 300 افراد پر مشتمل ایک ہجوم نے چرچ میں عبادت کے دوران حملہ کردیا، جبکہ پولیس نے بھی چرچ کے پادری کو مارا پیٹا اور اس پر چرچ کو مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کا جھوٹا الزام عائد کردیا۔
فروری میں جنوبی بھارت میں تمل ناڈو ریاست کے تھوتھوکوڈی ضلع کے ستھانکولم قصبہ میں پولیس نے نو مسیحیوں کو ”لوگوں کو جبراً مذہب تبدیل کرانے“ کا الزام لگاتے ہوئے بری طرح مارا پیٹا۔ اسی صوبہ میں اپریل میں متعدد مسیحیوں کو اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ غریبوں کو کھانا اور دیگر امدادی اشیاء تقسیم کررہے تھے۔ پولیس نے ان مسیحیوں پر لوگوں کا مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگایا۔ اپریل میں ہی مشرقی صوبہ اوڈیشا میں ایک گھر میں عبادت میں مصروف مسیحیوں پر حملہ کرکے انہیں بری طرح پیٹا گیا۔
بھارت میں مسیحی مخالف سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والی تنظیم پرزیکیوشن ریلیف کے مطابق بھارت میں 2016 سے 2019 کے درمیان مسیحیوں کے خلاف جرائم کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بیشترواقعات بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست اترپردیش میں ہوئے ہیں۔
بھارت میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے متعدد ریاستوں نے تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قوانین منظور کیے ہیں۔ ان قوانین کا مقصد کسی شخص کو زبردستی، دھوکہ دے کر یا لالچ دے کر یا دھمکا کر مذہب تبدیل کرنے یا کرانے کی کوشش سے روکنا ہے۔ تاہم پرزیکیوشن ریلیف جیسی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی آڑمیں انتہاپسند عناصر کلیساوں میں عبادت میں رخنہ ڈالتے اور مسیحیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔
امریکا سے سرگرم بین الاقوامی تنظیم ’اوپن ڈورز‘ کے مطابق دنیا میں مسیحیوں کے لیے مشکل ترین ممالک کی فہرست میں بھارت دسویں نمبر پر ہے۔ اوپن ڈورز کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسیحیوں کوشدت پسندوں کے ہاتھوں ’انتہائی خوفناک‘ صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان پر ہر سال ہزاروں کی تعداد میں حملے ہوتے ہیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2014 میں بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسیحیوں پر حملوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ برس ان پر ہر روز اوسطاً ایک حملہ ہوا۔
یو سی ایف کا کہنا ہے کہ پولیس سیاسی دباو کی وجہ سے مسیحیو ں پر ہونے والے حملوں کی رپورٹیں درج کرنے سے اکثر انکار کردیتی ہے جب کہ بعض اوقات تو خود متاثرین کو ہی ملزم بنادیا جاتا ہے۔
سائنس کی اساس میں یہودی، مسیحی اور مسلمانوں کا کردار
ہماری عصری سائنس کی جڑیں یہودی، مسیحی اور مسلم محققین سے جا کر ملتی ہیں۔ قرون وسطٰی کے دور میں انہوں نے قدیمی مفکرین کی تحریروں کا ترجمہ کیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
پہلا سائنسدان
یونانی ماہر علوم ارسطو کی یہ تصویر 1457ء میں تخلیق کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دُور دُور سے لوگ قدیمی یونانی مفکرین اور فلسفیوں کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی کوششوں میں رہتے تھے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند، سورج اور ستارے
علم فلکیات اور کائنات میں زمین کے ڈھانچے کی اہمیت قرون وسطی کے مفکرین کے لیے بھی اتنی ہی اہم تھی، جتنی آج کے سائنسدانوں کے لیے ہے۔ یہ تصویر 1392ء سے 1394ء کے درمیانی دور کی ہے۔ یہ دور کوپرنیکس کے عہد سے تقریباً سو برس قبل کا ہے، کوپرنیکس نے دریافت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور ہمارا سیارہ کائنات کے درمیان میں نہیں ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم کی منتقلی
یوہانس گوٹن برگ نے اس کے تقریباً ساٹھ سال بعد پرنٹگ یا طباعت دریافت کی تھی۔ یہ ہاتھ سے لکھی گئی ایک کتاب ہے۔ یہودی، مسیحی اور مسلم ثقافتوں میں اس دوران ایک ایسی صنعت قائم ہوئی، جس کا کام قدیمی تحریروں کو ترجمہ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانا تھا۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دنیا بھر کے ماہر علوم
یہ 1370ء میں تخلیق کی جانے والی ایک کتاب کا عکس ہے۔ اس میں ستاروں سے بھرے ہوئے ایک آسمان کے نیچے بارہ افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے لباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان بارہ ماہرین کا تعلق مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
ستاروں کی چال
1029ء میں ایک مسلم محقق نے ہسپانوی شہر تولیدو میں یہ اصطرلاب یا ایسٹرو لیب تیار کی تھی۔ اندلس کے مسلمانوں، جنہیں مورز بھی کہا جاتا ہے، نے جزیرہ نما آئبیریا ( موجودہ اسپین) کے ایک بڑے حصے پر سن 711 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لوگ 1492ء تک اس علاقے پر حکومت کرتے رہے تھے۔ سات سو سال حکومت کے بعد انہوں نے فن تعمیرات اور ادب کا بہترین خزانہ اپنے پیچھا چھوڑا ہے۔ ان میں غرناطہ میں قائم الحمرا کا قلعہ ہے۔
تصویر: Staatsbibliothek zu Berlin
مختلف ثقافتیں اور یکساں سوچ
یہ ایسٹرو لیب پہلے والے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم یہ تصویر ایک ایسی کتاب سے لی گئی ہے، جس کی رونمائی اس کے چار سو سال بعد ویانا میں کی گئی تھی۔ اس کتاب کا تعلق علم فلکیات کی ایک دستاویز سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند پر نظر
ہر زمانے کے ماہر فلکیات کو چاند میں دلچسپی رہی ہے۔ جرمن شہر لائپزگ میں 1505ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں چاند کی مختلف منزلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دن، مہینے اور موسم
ہر مذہب میں کلینڈر یا تقویم اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سائنس کے طور پر علم فلکیات اور عقیدے کے نظام میں ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ 1415ء میں ویانا میں لکھی گئی عبرانی میں ایک مذہبی کتاب ہے۔ اس صفحے پر سال کا دوسرا دن درج ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
صحت مند غذا
مشہور یونانی فلسفی بقراط نے خوراک کے حوالے سے کچھ مشورے دیے تھے، ان کے یہ مشورے دسویں صدی کے لوگوں کے لیے بھی بہت دلچسپی کا باعث تھے۔ ان میں صحت مند خوراک کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
تندرست
چودہویں صدی میں بقراط کی دانائی کی ایک اور مثال۔ یہ کتاب پیرس میں لکھی گئی تھی۔ اس صفحے پر دیگر تفصیلات کے علاوہ ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
بچے کی پیدائش
یہ کتاب جنوبی فرانس میں چودہویں صدی کے وسط میں سرجنز اور مڈ وائفس کے لے لکھی گئی تھی۔ اس میں بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم طاقت ہے
موجودہ ایران اور قدیمی فارس کے معروف طبیب اور فلسفی بو علی سینا اس تصویر میں ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان کے اطراف ڈاکٹرز بیٹھ کر علاج معالجے کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ تصویر بو علی سینا کے انتقال کے چھ سو سال بعد یعنی پندرہویں صدی کی ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
انسان اور جانور
اس کتاب میں ایک خطرناک ناگ کو پکڑنے کے طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ کتاب موصل میں 1220ء میں عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں مسیحی فلسفی اور سائنسی امور کے ماہر جوہانس فیلوپونس کے تحریروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔