'بھارت مشرقی لداخ میں 26 پیٹرولنگ پوائنٹس گنوا چکا ہے'
جاوید اختر، نئی دہلی
25 جنوری 2023
یہ انکشاف ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بھارت کے چوٹی کے پولیس افسران کی سالانہ کانفرنس میں کیا۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی اس کانفرنس میں وزیراعظم مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال بھی موجود تھے۔
اشتہار
چین کے ساتھ جاری سرحدی تنازعے کے تناظر میں بھارت کے زیر انتظام علاقے لداخ کے اہم شہر لیہہ کی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پی ڈی نتیہ نے "تشویش ناک" انکشاف کیا ہے کہ بھارت مشرقی لداخ میں 65 پٹرولنگ پوائنٹس میں سے 26 پر اپنی رسائی سے محروم ہو چکا ہے۔
چین کے ساتھ بھارت کی 3500 کلومیٹر طویل سرحد پر مختلف مقامات پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق اعلیٰ پولیس افسر پی ڈی نتیہ نے وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈووال کی موجود گی میں پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہا، "درہّ قراقرم سے شروع ہو کر چومور تک 65 پٹرولنگ پوائنٹس ہیں، جہاں بھارتی سکیورٹی فورسز مستقل پٹرولنگ کرتی تھی۔ لیکن پابندیوں یا گشت نہیں ہونے کی وجہ سے 65 پٹرولنگ پوائنٹس میں سے 26 کو ہم گنوا چکے ہیں۔"
پی ڈی نتیہ نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ،"چین نے دباو ڈال کر اس حقیقت کو تسلیم کرالیا ہے کہ چونکہ ان علاقوں میں طویل عرصے سے بھارتی سکیورٹی فورسز یا سویلین کی کوئی موجودگی نہیں نظر آتی ہے لہذا ان علاقوں میں چینی موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھارتی حصے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے زیر کنٹرول سرحد میں تبدیلی آگئی اور اس طرح کے تمام مقامات پر ایک "بفر زون" قائم ہو گیا۔ اور اس کی وجہ سے بالآخر بھارت ان علاقوں پر اپنے کنٹرول سے محروم ہوگیا۔"
پولیس افسر پی ڈی نتیہ کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) دراصل اپنی اس حکمت عملی کے ذریعہ، جو 'سلامی سلائسنگ' کے نام سے مشہور ہے، ایک ایک انچ کرکے زمین پر قبضے کرتی ہے۔
بھارت کا لداخ تک سرنگوں کا جال بچھانے کا منصوبہ
02:43
بھارتی فوجیوں کے حوصلوں پر اثر پڑا ہے
پی ڈی نتیہ کا کہنا ہے کہ، "پی ایل اے نے بفر زون کے علاقوں میں انتہائی بلندیوں پر اپنے بہترین کیمرے نصب کر دیے ہیں اور ہماری فورسز کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھ رہی ہے۔ وہ حتی کہ بفر زون میں ہماری نقل و حرکت پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ علاقہ ' ان کی' کارروائی کے دائرے میں آتا ہے۔ اور وہ ہم سے مزید پیچھے ہٹنے کے لیے کہتے ہیں اور مزید بفر زون بنا لیتے ہیں۔"
گلوان وادی میں سن 2020 میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان تصادم میں کم از کم 20 بھارتی فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے جب کہ کم از کم چا رچینی فوجی بھی مارے گئے تھے۔
اعلیٰ بھارتی پولیس افسرکا کہنا تھا کہ ان علاقوں کو اپنی دسترس سے باہر قرار دینے اور انہیں بنجر سمجھ کر چھوڑ دینے سے فوجیوں کے حوصلے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
مودی حکومت نے اس انکشاف پر فی الحال باضابطہ کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم وزارت دفاع کے ایک ذرائع نے ان دعووں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت اپنی سرزمین کے کسی بھی حصے سے محروم نہیں ہوا ہے۔"بعض علاقوں میں دونوں ملکوں کی فوج کے پٹرولنگ پر پابندی ہے اور تنازع ابھی سفارتی طورپر حل طلب ہے۔"
دریں اثنا حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان اور سابق مرکزی وزیر سبرامنیم سوامی نے اس انکشاف پر مودی حکومت پر طنز کیا ہے۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا، "جرأت مند سرکاری افسران نے انکشاف کر دیا اور ایک بے خوف اخبار (دی ہندو) نے اس بات کی تصدیق کردی جو میں کہتا رہا ہوں: مودی نے یہ کہہ کر کہ 'کوئی آیا نہیں... ' بھارتیوں کو گمراہ کیا ہے۔ اب یہ بالکل واضح ہے کہ مودی حکومت نے (65پٹرولنگ پوائنٹس میں سے 26تک رسائی سے محروم ہوکر) چین کے سامنے خود سپردگی کردی ہے۔"
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔