بھارتی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ایک اور کسان کی آج موت کے ساتھ اب تک بیس سے زائد کسانوں کی موت ہوچکی ہے۔ کل ایک شخص نے احتجاجاً گولی مار کر خودکشی کرلی تھی۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی سرحد پردھرنے دیئے ہوئے ایک کسان کی سخت سردی کی وجہ سے آج صبح موت ہوگئی۔ کسان رہنماؤں کے مطابق گزشتہ بائیس دنوں سے مسلسل احتجاج کے دوران اب تک بیس سے زائد کسانوں کی جان جا چکی ہے، ان میں سے بیشتر کی موت کی وجہ سردی لگنا بتائی جا رہی ہے۔
سردی کی وجہ سے ہلاک ہونے والے کسان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ان کی عمر 37 برس تھی اور ان کے تین بچے ہیں۔ آج صبح ٹیکری بارڈر پر مظاہرے کی جگہ پر وہ اپنے عارضی خیمے میں مردہ پائے گئے۔ ذرائع کے مطابق ان کی موت سردی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ دہلی میں کل بدھ کو درجہ حرارت چار ڈگری تک پہنچ گیا تھا، جو گزشتہ دس برسوں میں سب سے کم تھا۔
'شردھانجلی دیوس‘ منانے کا اعلان
ہریانہ کے ایک گردوارہ کے پجاری بابا رام سنگھ نے بدھ کے روز احتجاجا ً گولی مار کر خودکشی کر لی۔ انہوں نے اپنے تحریری نوٹ میں کہا ہے کہ وہ کسانوں کے مظاہرے کی زبردست حمایت کرتے ہیں اور کسانوں کے ساتھ حکومت کی ناانصافی سے مایوس اور ناراض ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کررہے ہیں۔
کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف جب سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ہیں ہر روز کم از کم ایک کسان کی موت ہو رہی ہے اور اب تک بیس سے زائد کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔
کسانوں کی تنظیم آل انڈیا کسان سنگھرش کو آرڈی نیشن کمیٹی نے ان متوفی کسانوں کی یاد میں 20 دسمبر کو ہر گاؤں میں 'شردھانجلی دیوس‘ (یوم خراج عقیدت) منانے کا اعلان کیا ہے۔
بھارت: کسانوں کا حکومت مخالف احتجاج جاری
بھارت کے متنازعہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ کسانوں نے قومی دارالحکومت کی سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن تعطل برقرار ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہار نہیں مانیں گے
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
امید باقی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت نئے سیاہ قوانین واپس لے گی اور یہ احتجاج حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم دہشت گرد نہیں
کسانو ں کی اس غیر معمولی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ مظاہرین نے 'خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بعدازاں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
تصویر: Mohsin Javed
نوجوانوں کی امنگیں
مظاہرے میں بڑی تعداد میں نوجوان بھی موجود ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ اور مغربی ممالک سے واپس لوٹ کر زراعت کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین بھی شانہ بشانہ
اس مظاہرے میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ان کا جوش و خروش قابل دید ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
زخمی مظاہرین
حکومت نے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے۔ اس دوران آنسو گیس کے شیل لگنے سے کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
مظاہرین کی آمد کا سلسلہ جاری
ملک کے مختلف حصوں سے مرد اور خواتین کسانوں کے قومی دارالحکومت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ملک بھر کے کسان شامل
مودی حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک ہے لیکن متعدد ریاستوں کے کسانوں اور مختلف تنظیموں نے اس میں اپنی شمولیت کا ثبوت پیش کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
جنگ جاری رہے گی
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی، جب تک مزدور کسان استحصال کا شکار ہیں۔" بھگت سنگھ
تصویر: Mohsin Javed
کھانے کی تیاری
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی تیاری کرکے آئے ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے کسان رہنمااپنا کھانا بھی ساتھ لے کر گئے تھے اور حکومتی ضیافت کو ٹھکرا دیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ذرا تازہ دم ہوجاوں
مظاہرین کی خدمت کرتے کرتے تھک کر ایک کسان تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
ماں کا آغوش
کسان زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور نیند کے لیے ماں کے آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
حالات سے باخبر
دھرنا اپنی جگہ، لیکن 'دیش اور دنیا‘ کے حالات سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
علم کا کوئی بدل نہیں
مظاہروں کے ساتھ ساتھ حصول علم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے 'روڈ لائبریری‘ بھی قائم کررکھی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ڈاکٹر اور دوائیں بھی دستیاب
مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد کے لیے صرف کھانے پینے کا ہی نظم نہیں ہے بلکہ کسانوں نے ان کی صحت کی دیکھ بھال کا پورا انتظام بھی کررکھا ہے۔ درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملہ رضاکارانہ طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصرو ف ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے تمام سرحدو ں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کررکھے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال دہلی میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
کنگنا رناوت پھنس گئیں
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے مظاہرین کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کنگنا نے گو اپنا ٹوئٹ واپس لے لیا ہے لیکن مظاہرین اب بھی ناراض ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'گودی‘ میڈیا سے ناراضگی
کسان حکومت نواز میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔انہوں نے ایسے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا‘ حکومت نواز میڈیا کو کہتے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'سوچھ بھارت‘
وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم 'سوچھ بھارت‘ کی عملی تصویر۔ کسان خود ہی صفائی ستھرائی بھی کررہے ہیں۔
ٹیکسٹ: جاوید اختر تصاویر: محسن جاوید
تصویر: Mohsin Javed
19 تصاویر1 | 19
’احتجاج بنیادی حق ہے‘
کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے جاری تعطل کو ختم کرنے کے لیے مودی حکومت اور کسانوں کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ دوسری طر ف سپریم کورٹ میں بھی اس معاملے پر سماعت ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے آج جمعرات کے روز بات چیت کے ذریعہ جلد از جلد مسئلے کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ جلد ہی 'قومی مسئلہ‘ بن جائے گا۔
سپریم کورٹ نے کہا،''ہم کسانوں کے احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ہم مرکز سے جاننا چاہیں گے کہ کیا مظاہروں کو اس انداز میں تبدیل کیاجا سکتا ہے، جس سے شہریوں کی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔"
اشتہار
الزام اور جوابی الزام
سپریم کورٹ نے متنازعہ قوانین کے خلاف اعتراضات کو حل کرنے کے لیے حکومت اور کسانوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے قیام کا مشورہ بھی دیا۔ لیکن کسان یونینوں نے اسے مسترد کرتے ہو ئے کہا کہ کمیٹی کی تشکیل ان کے مسئلے کا حل نہیں ہے کیوں کہ وہ ان کا مطالبہ ہے کہ تینوں قوانین واپس لیے جائیں۔
کسانوں کے احتجاج میں شامل سوراج انڈیا نامی تنظیم کے رہنما یوگیندر یادو نے ٹوئٹ کر کے کہا، ”عدلیہ ان قوانین کی عملیت اور لازمیت کو طے نہیں کر سکتی۔ یہ کسانوں اور ان کے منتخب رہنماؤں کے درمیان کا معاملہ ہے۔ عدالت کی نگرانی میں مذاکرات غلط راستہ ہوگا۔"
دوسری طرف مودی حکومت کے وزراء اس تحریک کی پشت پر بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہونے کے الزامات دہرا رہے ہیں۔ پٹرولیم کے وفاقی وزیر دھرمیندر پردھان نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا،''اس تحریک کے پیچھے اس بھارت مخالف اور جاگیردارانہ طاقتوں کا ہاتھ ہے جو قومیت اور خود انحصار بھارت کے نظریات کے بھی مخالف ہیں۔‘‘
سیکولر بھارتی آئین کا مستقبل خطرے میں، نوبل انعام یافتہ امرتیا سین
01:18
’غلام‘ بن جانے کا خوف
حکومت نے زرعی قوانین کے حوالے سے کسانوں کی 'غلط فہمیوں کو دور کرنے‘ کے لیے دو کروڑ سے زائد کسانوں کو ایک کتابچہ بھیجا ہے، جس میں کسانوں کے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کے اقدامات کا بالتفصیل ذکر ہے۔
بھارت کی 60 فیصد آبادی زراعت پر منحصر کرتی ہے۔ اس کے باوجود ملک کے کئی حصوں میں ہر سال پانچ ہزار سے زائد کسان خودکشی کرتے ہیں۔ بعض زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے زرعی قوانین ملک کے بقیہ حصوں کے لیے تو شاید ٹھیک ہوں لیکن بڑی مقدار میں گیہوں اور چاول اگانے والے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کو ان میں اپنا نقصان دکھائی دے رہا ہے۔
مظاہرہ کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کی وجہ سے وہ بڑے تاجروں او رکارپوریٹ گھرانوں کے 'غلام‘ بن کر رہ جائیں گے۔ گوکہ حکومت، کسانوں کے ایک اہم مطالبہ یعنی اناج کی کم از کم قیمت کی ضمانت دینے کا وعدہ کر رہی ہے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے وعدوں کا سابقہ ریکارڈ کافی خراب رہا ہے۔
حکومت کے بعض حامیوں کا بھی کہنا ہے کہ نئے زرعی قوانین بنانے سے پہلے حکومت کو متعلقہ فریقین کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے تھی۔ پارلیمان میں بھی اس پر خاطر خواہ بحث کرائے بغیر صرف پندرہ منٹ کے اندر جس انداز میں حکومت نے اسے منظور کرایا اس پر بھی اپوزیشن جماعتوں کو اعتراض ہے۔
بھارتی بنجاروں کی زندگی
بھارتی معاشرے میں خانہ بدوش یا بنجارے مرکزی دھارے سے پوری طرح کٹے ہوئے ہیں۔ ماضی کے خانہ بدوش تاجر اب صرف محنت مزدوری پر گزر بسر کر رہے ہیں۔
تصویر: Murali Krishnan/DW
بنجاروں کی نسلی جڑیں
تاریخی اعتبار سے بھارتی بنجارے خانہ بدوش برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ مسلسل ایک ٹھکانے سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بنجارے اب سارے بھارت میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ہر جگہ پر انہیں مقامی زبان میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ راجستھان سے ان کی نسلیں جوڑی جاتی ہیں۔
تصویر: Murali Krishnan/DW
ماضی کے سیاح اور تاجر
صدیوں قبل میں بنجارے دور دراز کے مختلف علاقوں میں روزمرہ ضرورت کی اشیا فروخت کیا کرتے تھے۔ ان کی شہرت اچھے تاجروں کی تھی۔ بنجارہ لفظ ’ونج‘ سے ہے اور اس کا مطلب تجارت اور ’جارا‘ کے معنی سفر کے ہیں۔ یہ ہند سلسلے کی آریائی ’گوربولی‘ بولتے ہیں۔
تصویر: Murali Krishnan/DW
منفرد لباس اور زیورات
بنجاروں کی خواتین منفرد طرز کے لباس اور زیورات پہنتی ہیں۔ بنجاروں کا وطن بھارتی ریاست راجستھان کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی خواتین کے لباسوں میں راجستھانی رنگ جھلکتا ہے۔ ان کے زیورات مصنوعی مگر خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان کے ناک میں لونگ یا ’نوز پِن‘ خاص طور پر سونے کی ہوتی ہے۔
تصویر: Murali Krishnan/DW
امتیازی سلوک کی شکار برادری
بھارت میں بنجاروں کو دستور کے تحت ایک پسماندہ ذات یا قبیلہ قرار دیا گیا ہے۔ معاشرتی اعتبار سے ان کی حوصلہ شکنی کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یورپ کے روما خانہ بدوش باشندے بھی بنجاروں کی نسل سے ہیں۔
تصویر: Murali Krishnan/DW
بنجاروں کی بدلتی زندگی
راجستھان میں بنجاروں کا ایک گاؤں بانسور ہے۔ وہاں ان کی زندگی میں آئی تبدیلی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ بانسور میں بنجاروں کے بچے اسکول جاتے۔ بنجارہ مرد ٹھیکیداری یا ہنر سیکھ کر دستی کاریگر بن چکے ہیں۔
تصویر: Murali Krishnan/DW
ڈیجیٹل انضمام
چند برس قبل تک بنجارہ خواتین میں ماہواری اور دیگر حفظانِ صحت پر گفتگو کرنا نہایت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اب بنجارہ خواتین کو کئی ایسے معلوماتی پروگرام دستیاب ہیں۔ کئی غیر حکومتی تنظیمیں بھی ان کی تربیت کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اب بانسور گاؤں کی خواتین کمپیوٹر استعمال کرنا جانتی ہیں۔