1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مظاہرے، انٹرنیٹ معطل، گرفتاریاں اور ڈرونز سے نگرانی

27 دسمبر 2019

بھارت میں شہریت سے متعلق نئے متنازع قانون کے خلاف جمعے کو لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے۔ حکومت نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا۔ حساس علاقوں میں پولیس اور نیم فوجی دستوں تعینات ہیں۔

Indien Proteste gegen Staatsbürgerschaftsgesetz
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. K. Singh

 

دارالحکومت دہلی میں مظاہروں کو روکنے کے لیے دفعہ 144 کے تحت امتناعی احکامات نافذ ہیں تاہم اس کے باوجود، فصیل شہر جامع مسجد، سیلم پور، جور باغ اور شاہین باغ جیسے علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بڑی تعداد میں لوگ پیدل مارچ کر کے وزیراعظم کی رہائش گاہ تک جانے کی کوشش کی تاہم جامع مسجد کے علاقے سے مظاہرین کو باہر نکلنے نہیں دیا گيا۔

صنعتی شہر ممبئی میں بھی کئی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گيا، جس میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔ مظاہرین بائیکلہ روڈ پر مظاہرہ کرنا چاہتے لیکن پولیس نے اجازت نہیں دی تو سب ممبئی کے معروف آزاد میدان میں جمع ہوئے۔اس موقع پر 'آل انڈیا ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن' کی سربراہ مالنی بھٹّاچاریہ نے مودی حکومت پر آئین کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا۔

پولیس نے اب تک تقریبا گيار سو افراد کو گرفتار اور ساڑھے پانچ ہزار سے زائد افراد کو حفاظتی حراست میں لیا ہےتصویر: Reuters/A. Fadnavis

سب سے زیادہ پابندیاں ریاست اترپردیش میں نافذ کی گئی ہیں جہاں دارالحکومت لکھنؤ سمیت متعدد حساس علاقوں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور پولیس کے ساتھ ساتھ نیم فوجی دستے بہت سے علاقوں میں گشت کر رہے ہیں۔ انتظامیہ نے لکھنؤ سمیت اکیس اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز کو معطل کر دیا ہے اور جمعے کی نماز کے بعد ہونے والے مظاہروں پر نظر رکھنے کے لیے ڈرونز سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ ریاست کے تقریبا دو تہائی علاقے میں انٹرنیٹ جیسی کوئی چیز نہپیں ہے۔

گزشتہ جمعے کو یوپی کے مختلف علاقوں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور پھر اس پر قابو پانے کے لیے فورسز نے فائرنگ کی تھی جس میں ریاست کے مختلف اضلاع میں اب تک انیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ ستائیس دسمبر کو سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور مظاہروں کو روکنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اب تک تقریبا گيار سو افراد کو گرفتار کیا گيا ہے جبکہ ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کو حفاظتی حراست میں لیا گیا ہے۔ سنہ 2013 میں مغربی یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد سے پولیس کی یہ اب تک سب سے بڑی کارروائی ہے۔ یوپی کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس او پی سنگھ نے میڈیا سے بات چیت میں کہا "امن و قانون کی صورتحال پوری طرح سےکنٹرول میں ہے، احتیاطی تدابیر کے طور پر ہم نے فورسز کو تعینات کیا ہے۔‘‘

جمعہ بیس دسمبر کو یوپی کے مختلف علاقوں میں پرتشدد مظاہرے پر قابو پانے کے لیے فورسز نے فائرنگ کی تھیتصویر: AFP/B. Boro

آگرہ جو تاریخي عمارت تاج محل کے سبب سیّاحوں کی توجہ کا مرکز ہے، اس میں بھی صبح سے شام چھ بجے تک انٹرنیٹ معطل ہے۔اس کے علاوہ بجنور، بلند شہر، مظفرنگر، میرٹھ، علی گڑھ، غازی آباد، فیروزآباد، شامبلی، رام پور، سیتا پور، کانپور اور لکھنؤ جیسے شہروں سمیت تقریبا دو تہائی یوپی میں انٹرنیٹ نہیں ہے۔

شہریت سے متعلق متنازع قانون کے فوری بعد سے ہونے والے مظاہروں کو اب تقریبا دوہفتے گزر چکے ہیں اور مخالفین کا مطالبہ ہے کہ یہ قانون چونکہ بھارتی آئین سے متصادم ہے  اس لیے اسے واپس لیا جائے۔ لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مثبت عندیہ نہیں ملا ہے۔ البتہ حکومت کی حامی بعض تنظیمیں کی طرف اس قانون کی حمایت میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔

حزب اختلاف کی بیشتر جماعتیں بھی اس قانون کی مخالف ہیں اور مظاہرین پر پولیس  کے تشدد کے تعلق سے حکومت پر سخت نکتہ چینی ہورہی ہے۔ جمعے کو کانگریسی رہنما پرینکا گاندھی نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں وزیر داخلہ امیت شاہ پر سخت نکتہ چینی کی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں