بھارت: معمولی جرائم میں ملوث قیدیوں کی ضمانت پر رہائی ممکن
20 نومبر 2024دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں ایک طویل عرصے سے چلے آ رہے انصاف کے بدنام زمانہ سست رفتار نظام اور عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات کو نمٹانے کے لیے اصلاحاتی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے نے معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث ایسے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جنہوں نے اپنی ممکنہ سزا کا کم از کم ایک تہائی حصہ مکمل کر لیا ہے۔ بھارت میں لاکھوں مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔کیا بھارت میں عدالتیں بھی انسانی حقوق کے تحفظ سے دستبردار ہوگئی ہیں؟
زیر حراست افراد کی تعداد
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2024ء کے اوائل سے کم از کم 134,799 افراد زیر حراست ہیں اور یہ اپنے مقدمات کی سماعت کے منتظر ہیں۔ ان میں سے 11,448 پانچ سال سے زائد عرصے تک بغیر کسی سزا کے جیل میں بند ہیں۔ تاہم اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی گئیں کہ ضمانت کی نئی شرائط سے کتنے قیدیوں کو ریلیف ملک سکتا ہے لیکن وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ پیشگی شرائط پر پورے اترنے والے قیدیوں کی ضمانت 26 نومبر کو بھارت کے یوم دستور کی تعطیل سے پہلے کی جانی چاہیے۔
گرفتاریاں کشمیر سے، قید سینکڑوں کلومیٹر دور جیلوں میں
امیت شاہ نے کہا کہ وہ پرعزم ہیں کہ بھارت میں ''سائنسی اور تیز رفتار‘‘ فوجداری نظام انصاف قائم ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہماری کوشش ہے کہ یوم دستور سے پہلے ملک کی جیلوں میں ایک بھی قیدی ایسا نہ ہو، جس نے اپنی سزا کا ایک تہائی حصہ کاٹ لیا ہو اور اسے ابھی تک انصاف نہ ملا ہو۔‘‘
اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہ بیان منگل کو پولیس افسران سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر ایک مخصوص مدت کے بعد مقدمہ نہیں چل رہا ہے تو پھر جیل افسر کو ضمانت کے عمل کو عدالت کے اندر پیش کرنا پڑے گا۔‘‘
بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی عدالتی کارروائی کے منتظر
امیت شاہ نے تاہم یہ بھی کہا کہ یہ رعایت سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو مہیا نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے سخت قانون (یو اے پی اے) کے تحت زیر حراست وہ ملزمان بھی اس رعایت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، جو بغیر کسی مقدمے کے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھے گئے ہیں۔
یو اے پی اے ہی سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
قانون پر تنقید
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے یو اے پی اےکو اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ گزشتہ سال، سپریم کورٹ نے خبردار کیا تھا کہ ''جب قانونی عمل سست رفتاری سے آگے بڑھتا ہے، تو متاثرین مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘‘ کچھ ٹرائلز میں 65 سال تک لگ جاتے ہیں۔
بھارت میں سماعتوں کو سہل اور منظم بنانے کے لیے ڈیجیٹل سسٹمز میں بہت کم سرمایہ کاری کی گئی ہے جبکہ ججوں کی تعداد بھی آبادی کے تناسب سے خاصی کم ہے۔ بھارت میں فی ملین آبادی کے لیے صرف 21 ججوں کا خدمات انجام دینا اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں عدالتی طریقہ کار انتہائی سست رفتار اور ناقص ہے۔
ک م/ ش خ(اے ایف پی)