بھارت: مفرور بابا کا ہندوؤں کے لیے ایک نئی ریاست کا اعلان
4 دسمبر 2019
بھارت سے تعلق رکھنے والے ریپ اور اغوا کے ایک مفرور ملزم اور مذہبی گرو نے ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے ایک نئے ہندو راشٹر کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کی سرحدیں نہیں ہیں۔
اشتہار
بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک مفرور مذہبی گرو نتیا نندا سوامی نے ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے سرحدوں کے بغیر والی ایک نئی ہندو راشٹر ( ریاست) کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ نتیا نندا جنسی زیادتی اور اغوا کے واقعات میں بھارتی پولیس کو مطلوب ہیں۔
بھارتی پولیس کو متنازعہ مذہبی گرو بابا نتیا نندا کا پتہ لگانے میں مشکلات کا سامنا ہے تاہم اس دوران بابا کی جانب سے ایک نئے ہندو راشٹر (ہندو مذہب کے عقیدت مندوں کے لیے خاص ملک) کیلاش کا اعلان کیا گیا ہے۔ کیلاش کے نام سے ایک ویب سائٹ پر اس ملک کی تفصیلات درج ہیں، جس پر موجود ایک ویڈیو میں بابا جی نے اس نئی ریاست سے متعلق بعض اہم انکشافات بھی کیے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ خود مختار ریاست کہاں واقع ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق کائنات میں واقع یہ ایک روحانی ریاست ہے جہاں ستائے جانے والے ہندو آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں۔
بھارت کے بعض اخبارات نے اس خبر کو بڑی تفصیل سے شائع کیا ہے، جس میں بتایا گيا ہے کہ بابا نتیا نندا نے لاطینی امریکی ممالک ایکواڈور اور ٹرینیڈاڈ کے آس پاس ایک جزیرہ خریدا ہے اور وہیں پر بابا نے اپنی نئی ہندو سلطنت قائم کی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق اس نئے خود مختار ملک کی اپنی کابینہ، وزیراعظم اور وزراء ہیں۔ اس کا اپنا پرچم ہے، جس کا نام رشبھ دھوج ہے۔ اس پرچم پر خود نتیا نندا کی تصویر بھی ہے۔ اس ملک کی زبان انگریزی، سنسکرت اور تمل ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق ریاست کیلاش کی مہم کی بنیاد تو امریکا میں رکھی گئی تھی لیکن اس کے دروازے ذات پات، مکتبہ فکر اور نسلی امتیاز کے بغیر تمام ہندو پیروکاروں کے لیے کھلے ہیں۔ اس نئی ہندو ریاست میں دیگر ریاستوں کی طرح شعبہ تعلیم، معاشیات اور تجارت وغیرہ کے محکمے بھی ہیں لیکن سب سے اہم وزارت مذہبی امور کی ہے جس میں 'ہندو سناتن دھرم' کی بحالی پر زور دیا گیا ہے۔
اس ویب سائٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس ریاست کا اپنا پاسپورٹ ہے اور کیلاش کی شہریت حاصل کرنے کے لیے درخواست بھی دی جا سکتی ہے۔ ریاست کا دستور ہندو مذہب کے مطابق ہے اور اسی کی رو سے تمام کام انجام دیے جائیں گے۔ کیلاش کی فلاح و بہتری کے لیے عطیات دینے کے لیے بھی لوگوں کو راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ریاست گجرات کی پولیس کو بابا نتیا نندا کی کم عمر بچوں کے اغوا اور غیر فطری جنسی عمل کرنے جیسے الزامات کے تحت تلاش ہے۔ حال ہی میں پولیس نے کہا تھا کہ وہ ان کا سراغ نہیں لگا پا رہی ہے اور ان کے خیال میں شاید وہ ملک سے فرار ہوکر جنوبی امریکی خطے میں کہیں موجود ہیں۔ حال ہی میں اس سے متعلق وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار سے جب سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا، "نتیا نندا کہاں پر ہیں؟ اس بارے میں دفتر خارجہ کو کوئی علم نہیں۔"
نتیا نندا کا تعلق جنوبی ریاست تمل ناڈو سے ہے۔ ان کا اصل نام راجسےکرن ہے لیکن نتیا نندا کے نام سے ان کے بھارت میں اور بیرون ملک بہت سے آشرم، مندر اور مذہبی سکولز چلتے ہیں۔ دو ہزار دس میں ان کے خلاف اپنی ایک پیروکار کے ساتھ ریپ کا کیس درج کیا گیا تھا اور اس مقدمے میں بھی انہیں گرفتاری کا سامنا ہے۔
لیکن وہ اپنے سوشل میڈیا چلنلز پر اکثر مذہبی امور کی تبلیغ کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے ویڈیوز سے ان کے مقام کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے کہا تھا، "میں ہمالیہ کیلاش میں ہوں۔ میں پرما شیوا ہوں کوئی بھی عدالت سچ بولنے کے لیے مجھ پر مقدمہ نہیں چلا سکتی۔"
نتیا نندا کی جانب اس نئے ہندو راشٹر کے اعلان کی خبر کو بھارتی میڈیا میں بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گيا ہے۔ ایک اہم سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ بابا جی اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں لیکن بھارتی پولیس آخر ان کا سراغ کیوں نہیں لگا پا رہی ہے؟
ماہواری سے جڑی فرسودہ روایات
ایک بھارتی مندر میں تین خواتین کے داخل ہو جانے پر بڑا فساد ہوا۔ ان خواتین نے کئی صدیوں پرانی پابندی جو توڑ دی تھی۔ حیض کی عمر تک پہنچ جانے والی خواتین کو دنیا کے دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: Fotolia/Alliance
عبادت نہ کرو
براعظم ایشیا کے کئی حصوں میں دوران حیض خواتین کو عبادت اور دیگر مذہبی رسومات میں شرکت سے استثنا حاصل ہے۔ ہندوستان کے علاوہ چین اور جاپان کی بودھ کمیونٹی کے افراد بھی یہی تصور کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان خواتین بھی پیریڈز کے دوران نہ تو مسجد جا سکتی ہیں اور نہ ہی دیگر مذہبی سرگرمیاں سر انجام دے سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
کھانا نہیں پکانا
دنیا کے کئی حصوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ خاتون کو اس حالت میں کھانا نہیں پکانا چاہیے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض اچار کو چھو لے گی تو وہ خراب ہو جائے گا۔ کچھ معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماہواری کے دوران خواتین مکھن، کریم یا مایونیز جما سکتی ہیں۔ کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی خاتون نے حالت حیض میں آٹے کو چھو لیا تو وہ ٹھیک طریقے سے پکے کا نہیں۔
تصویر: Reuters
گھر بدر
انڈونیشیا کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال اور نائجیریا کے کچھ قبائل بھی حیض کو ’ناپاک‘ تصور کرتے ہیں۔ یہ خواتین کو ایام مخصوصہ کے دوران گھر سے نکال دیتے ہیں اور عمومی طور پر ان بچیوں اور خواتین کو ماہواری کے دن جانوروں کے لیے بنائی گئی جگہوں پر گزارنا ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں نیپال میں کئی خواتین موسم سرما کے دوران گھر بدر کیے جانے کے باعث ہلاک بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
نہانا نہیں ہے
بھارت سے لے کر اسرائیل اور کئی یورپی اور جنوبی امریکی ممالک میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو دوران حیض نہانا نہیں چاہیے اور بال بھی نہیں دھونا چاہییں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یوں خواتین بانجھ ہو جائیں گی یا بیمار۔ ان خطوں میں پیریڈز کے دوران خواتین کسی سوئمنگ پول یا ساحل سمندر پر غوطہ بھی نہیں لگا سکتیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/C. Khanna
بنو سنورو مت
’خواتین پیریڈز کے دوران بالوں کو نہ تو کاٹیں اور نہ ہی رنگیں یا سنواریں‘۔ کچھ کا یہ خیال بھی ہے کہ اگر خواتین حالت حیض میں جسم کے بال صاف کریں گی تو وہ دوبارہ زیادہ تیزی سے بڑے ہو جائیں گے۔ کچھ خواتین کو تو ناخن تراشنے یا رنگنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ وینزویلا میں مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض ’بیکنی لائن‘ سے بالوں کو صاف کریں گی تو ان کی جلد کالی اور خراب ہو جائے گی۔
تصویر: Fotolia/davidevison
پودوں سے دور رہو
کچھ معاشروں میں کہا جاتا ہے کہ دوران حیض خواتین کو پودوں اور پھولوں کے قریب نہیں جانا چاہیے اور کھیتوں سے دور رہنا چاہیے۔ ان فرسودہ روایات کے مطابق اگر یہ خواتین حالت حیض میں نباتات کو چھو لیں گی تو وہ سوکھ یا مر جائیں گی۔ بھارت میں ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مقدس پھولوں کو نہ تو چھوئیں اور ہی پانی دیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مردوں سے دوری
دنیا کے متعدد قدامت پسند خطوں میں پیریڈز کے دوران مردوں کے ساتھ رابطوں کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ آتھوڈکس یہودی مذہب میں خواتین کا حالت حیض میں مردوں سے جنسی رابطہ ممنوع ہے۔ پیریڈز ختم ہونے کے بعد یہ خواتین روایتی طور پر نہاتی ہیں اور اس کے بعد ہی یہ سیکس کر سکتی ہیں۔ پولینڈ اور روانڈا کے کچھ حصوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوران حیض کسی خاتون سے جماع مرد کی ہلاکت کا باعث ہو سکتا ہے۔
کچھ فرسودہ عقائد کے مطابق پیریڈز کے دوران ورزش یا کھیل خاتون کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں چینی خاتون اسٹار پیراک فو یوناہی نے آشکار کیا تھا کہ انہوں نے حالت حیض میں ریو اولمپک مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ اس بات نے چین میں ایک اہم شجر ممنوعہ توڑ دیا تھا اور یہ پیشرفت ایک نئی بحث کا باعث بن گئی تھی۔
تصویر: Fotolia/Brocreative
ٹیمپون استعمال نہ کرو
دنیا کے قدامت پسند ممالک اور خطوں میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے استعمال کا درست خیال نہیں کیا جاتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے خاتون کا پردہ بکارت پھٹ سکتا ہے، جو ان ممالک یا خطوں میں انتہائی شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت کئی قدامت پسند ممالک میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔