1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت ممبئی حملوں کے مقدمے میں تعاون کرے، پاکستان

5 ستمبر 2010

اسلام آباد نے نئی دہلی پر زور دیا ہے کہ وہ ممبئی حملوں سے متعلق پاکستان میں جاری عدالتی کارروائی میں پیش رفت کے لئے تعاون کرے۔ ممبئی میں 2008ء کے ان حملوں کے سات ملزمان کو پاکستان میں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’سماعت تعطل کا شکار ہے، دراصل ہم بین الاقوامی برادری کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ اس میں تاخیر برتی جاری ہے۔‘

بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرمتصویر: AP

رحمان ملک نے اپنے بھارتی ہم منصب پی چدمبرم سے فون پر بات بھی کی، جس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’مسٹر چدمبرم سے بات کرتے ہوئے ہم نے بھارت کو تجویز پیش کی ہے کہ کیوں نہ ہم اپنا مقدمہ اپنے ٹرائل کورٹ میں پیش کر دیں اور ان سے متعلقہ حکام کا ایک کمیشن قائم کرنے کی درخواست کریں، جو گواہوں کے بیان ریکارڈ کرے۔‘‘

رحمان ملک نے بتایا کہ پی چدمبرم نے اس تجویز پر غور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

پاکستان میں جن ملزمان کو عدالتی کارروائی کا سامنا ہے، ان میں ممبئی حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمان لکھوی اور کالعدم عسکری جماعت لشکر طیبہ کا زرار شاہ بھی شامل ہے۔

اس دہشت گردانہ کارروائی میں حصہ لینے والوں میں سے زندہ بچ جانے والا اجمل قصاب اور ان حملوں میں تعاون کرنے والا بھارتی شہری فہیم انصاری قید ہیں۔ قصاب کے لئے ایک بھارتی عدالت سزائے موت کا فیصلہ سنا چکی ہے۔ اس کے خلاف یہ فیصلہ قتل اور بھارت پر جنگ مسلط کرنے سمیت دیگر الزامات پر رواں برس 31 مارچ کو سنایا گیا۔

نئی دہلی حکومت نے پاکستان کو قصاب اور انصاری تک عدالتی رسائی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے باعث پاکستان میں جاری عدالتی کارروائی بھی تعطل کا شکار ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملکتصویر: Abdul Sabooh

گزشتہ برس نومبر میں ممبئی حملوں کا ایک سال مکمل ہونے پر اسلام آباد سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں انسدادی دہشت گردی کی ایک عدالت نے سات ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔ تاہم پاکستانی حکام نے تب ہی کہہ دیا تھا کہ قصاب کو گواہ کے طور پر ان کے حوالے کئے جانے تک سماعت آگے نہیں بڑھ سکتی۔

بھارت اور امریکہ نے ان حملوں کے لئے پاکستان سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس دہشت گردانہ کارروائی میں کم از کم 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں کے باعث پاکستان اور بھارت کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان جاری امن عمل بھی رک گیا تھا۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں