بھارت ميں ايٹمی بجلی گھروں کی مخالفت ميں اضافہ
29 اپریل 2011ساکھری ناتے کے باسيوں کو اس پر کوئی فخر نہيں کہ وہاں ايک جديد تر اور اتنے بڑے ايٹمی پلانٹ کی تعمير کا منصوبہ بنايا گيا ہے، بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ اس کی مخالفت کر رہے ہيں۔
اس مخالفت کے آثار جگہ جگہ نظر آتے ہيں۔ چائے اور ميٹھی چيزوں کی فروخت کے ايک کيبن کی ايک جانب ہندی ميں يہ نعرہ لکھا ہوا ہے: ’’ايٹمی بجلی سے انکار کردو۔ ہم بيمار ہونا نہيں چاہتے‘‘۔ اس سے کچھ ہی دور ايک ديوار پرتقريباً 10 ارب ڈالر کی لاگت سے ايٹمی ری ايکٹر کی تعمير کا معاہدہ کرنے والی فرانسيسی فرم کے ليے چاک سے انگريزی ميں يہ پيغام لکھا ہوا ہے: ’’اريوا گو بيک‘‘۔ مغربی بھارت کے اس علاقے ميں، جہاں لوگ کئی نسلوں سے ماہی گيری اور کھيتی باڑی کے ذريعے روزی کما رہے ہيں، جيتاپور کے ايٹمی بجلی گھر کے منصوبے کی شديد مخالفت پائی جاتی ہے۔
45 سالہ ماہی گير عبدالماجد گولکر کی يہ دليل بھی بہت مضبوط ہے کہ وہاں 600 کشتيوں ميں کم ازکم 5000 افراد کام کرتے ہيں اور وہ روزانہ 50 ٹن تازہ مچھلی اور جھينگے سمندر سے پکڑ کر لاتے ہيں۔ عبدالماجد نے کہا: ’’اگر ايٹمی پلانٹ تعمير ہو گيا تو ان تمام افراد کا روزگار خطرے ميں پڑ جائے گا۔ جب ايٹمی پلانٹ کا پانی سمندر ميں ڈالا جائے گا تو ہم مچھلياں پکڑنے نہيں جا سکيں گے۔ پلانٹ کے گرم پانی سے مچھليوں کی افزائش پر اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ ايٹمی پلانٹ سے خارج ہونے والا پانی آلودہ بھی ہوگا۔ اس آلودگی کے نتيجے ميں مچھلی پکڑنے کا سلسلہ روک دينا پڑے گا۔ اس کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا۔‘‘
بعض دوسرے گاؤں والے وہاں کی سب سے مشہور برآمدی شے کا تحفظ بھی چاہتے ہيں۔ الفانسو قسم کا آم وہاں کی خاص پيداوار ہے جس کے ليے 2318 ايکڑ زمين مخصوص کی گئی ہے۔ جيتاپور گاؤں کے ايک دکاندارمہيش کارانکر نے کہا: ’’يہاں کا عام کاروبار مچھلی اور آم کا ہے۔ اگر يہ ختم ہو گيا تو ہم کيا بيچيں گے۔ آخر پيسہ کيسے کمائيں گے؟‘‘
ويسے تو جيتاپور کے ايٹمی بجلی گھر کے منصوبے کے خلاف مزاحمت پہلے ہی سے بڑھ رہی تھی ليکن جاپان ميں سونامی اور زلزلے سے فوکوشيما ايٹمی بجلی گھر کی تباہی اور خطرناک تابکاری کے اخراج کے بعد سے جہاں دنيا بھر ميں ايٹمی بجلی گھروں کی سلامتی پر تفکرات ميں اضافہ ہوا ہے، وہاں بھارت ميں بھی ايٹمی بجلی گھروں کی تعداد ميں اضافے کے خلاف احتجاج ميں شدت پيدا ہو گئی ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک