1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں آر ایس ایس کا اگلا ایجنڈا ’صرف دو بچے‘

17 جنوری 2020

بھارت میں دائیں بازو کی سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ اس کے اگلے ایجنڈے میں ایک ایسا قانون وضع کروانا ہے جس میں والدین کو صرف دو ہی بچے پیدا کرنے کی اجازت ہو۔

Mohan Bhagwat Anführer der Organisation Rashtriya Swayamsevak Sangh
تصویر: Strdel/AFP/Getty Images

بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت آج کل مغربی اترپردیش کے شہر مرادآباد کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے تنظیم کے کارکنان سے بات چیت کے دوران اس منصوبے کا انکشاف کیا۔ ان کا کہنا تھا ، ’صرف دو بچوں‘ سے متعلق آر ایس ایس کے منصوبے پر عمل حکومت کو کرنا ہے۔ بھاگوت کے مطابق حکومت کو ایک ایسا قانون وضع کرنا ہے جس کے تحت والدین کو صرف دو بچے ہی پیدا کرنے کی اجازت ہوگی اور ایسا نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے گی اور انہیں حکومتی سہولیات سے محروم کیا جا سکے گا۔

بھارتی جمہوریت کی موت، تبصرہ

’آر ایس ایس کے وزیر اعظم نے بھارت ماتا سے جھوٹ بولا ہے‘

اس موقع پر تنظیم کے رضاکاروں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے  بھاگوت نے کہا کہ آر ایس ایس شہریت سے متعلق نئے قانون اور کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے جیسے حکومت کے تمام اقدامات کی حامی رہی ہے اور وہ اس کے نفاذ کے لیے حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ تنظیم کے ایک سرکردہ رکن ارون آنند نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کا آر ایس ایس کو ملک کی بڑھتی آبادی پر پہلے سے تشویش ہے اور یہ بیان اسی پس منظر میں ہے کہ اس پر قابو پانا ہے۔

ان سے جواب یہ سوال کیا گيا کہ اس سے پہلے ہندؤں کی تہذیب و ثقافت کی بقا کے لیے تنظیم ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کرتی رہی ہے تو اب آبادی پر کنٹرل کی بات کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسی کسی بات سے واقف نہیں ہیں۔

بھارت میں مسلم جماعتوں کی وفاقی تنظیم مسلم مجلس مشاورت نےآر ایس ایس کی اس تجویز پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ تنظیم کا موقف ہے کہ آبادی پر کنٹرول کے لیے قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تعلیم سے ہے اور جیسے جیسے لوگ بیدار ہوں گے، آبادی خود کم ہوتی جائے گي۔ تنظیم کے صدر نوید حامد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’یہ مسلمانوں کو چڑھانے کے لیے ان کی نفرت انگیز سیاست ہے۔ یہی ان کا مشن ہےجس کی تکمیل کے لیے یہ سب حربے استعمال کیےجا رہے ہیں۔‘‘

 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی، بے روزگاری اور معیشت جیسے اہم مسائل کے حل میں پوری طرح ناکام رہی ہے اور اس سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایسے مسائل اٹھائے جا رہے ہیں،  جن پر لوگ رد عمل ظاہر کریں اور ہندو مسلم کشیدگی پیدا ہو۔ انہوں نے کہا، ’’ایسی کوئی شرط عائد کرنا غیر آئینی ہے۔ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے کہ اسے کتنے بچے چاہیں؟ یا نہیں چاہیں۔ میرے خیال سے یہ ذاتی معاملہ ہے، اسے حکومت طے نہیں کر سکتی۔‘‘

اس وقت بھارت کی آبادی تقریبا ایک سو تیس کروڑ ہے اور آبادی پر کنٹرول کے حوالے سے پہلے بھی بحث ہوتی رہی ہے۔ اس بحث میں سختگیر ہندو نظریات کے حامل رہنما یہ نکتہ بھی اکثراٹھاتے رہے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تیزی بڑھی ہے۔ آبادی کے تعلق سے سن دو ہزار سولہ میں پارلیمان میں ایک نجی بل بھی پیش کیا گیا تھا لیکن اس پر نہ تو بحث ہوئی اور نہ ہی ووٹنگ ہو پائی۔ لیکن اس بات کے تذکرے ہوتے رہے ہیں کہ حکومت کو اس طرح کا قانون وضع کرنا چاہیے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں