بھارتی ریاست گجرات میں ہجومی تشدد کے ایک نئے واقعے میں مقامی لوگوں نے ایک فوجی جوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ ملک میں کئی برسوں سے مسلمانوں کے خلاف لنچنگ عام رہی ہے، تاہم اب اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: Imago/Hundustan Times
اشتہار
بھارتی ریاست گجرات کے ضلع نڈیاڈ میں پولیس نے فوج کے ایک جوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دینے کے الزام میں سات افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فوجی جوان اپنی بیٹی کی بعض عریاں تصاویر پوسٹ کرنے سے ناراض تھے اور اسی پر اعتراض کیا تھا۔ تاہم مقامی افراد نے انہیں اتنا مارا کی ان کی موت ہو گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بارڈر سکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے جوان میلجی بھائی واگھیلا اپنی بچی کی بعض قابل اعتراض تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے خلاف اس لڑکے کے گھر گئے تھے، جس نے مبینہ طور پر اسکول کی طالبہ کی بعض قابل اعتراض تصویریں شیئر کی تھیں۔
وہاں لڑکے کے اہل خانہ سے توتو میں میں جھگڑے میں بدل گئی اور گھر والوں نے واگھیلا سے مار پیٹ شروع کر دی۔ اس طرح انہیں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق وہ لڑکا بی ایس ایف اہلکار کی نو عمر بیٹی کا اسکول کا ساتھی ہے اور دونوں میں آپس میں دوستی بھی تھی۔
گزشتہ کئی برسوں سے، جب سے بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان پائی جانے والی نفرت اور مذہبی عداوت کے سبب اس طرح کے ہجومی تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ، غیر سرکاری تنظیموں اور کارکنان ماب لنچنگ کی روک تھام کے لیے خصوصی قوانین وضع کرنے کا بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں، تاہم حکومت نے اس پر بھی توجہ نہیں دیتصویر: picture.alliance/AP Photo/R. Maqbool
موجودہ بھارت میں گاؤ کشی یا گائیوں کی خرید و فروخت کے الزامات کے تحت سخت گیر اور انتہا پسند ہندو تنظیمیں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں وحشیانہ ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی سینکڑوں وارداتیں پیش آ چکی ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ، غیر سرکاری تنظیموں اور کارکنان ماب لنچنگ کی روک تھام کے لیے خصوصی قوانین وضع کرنے کا بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں، تاہم حکومت نے اس پر بھی توجہ نہیں دی اور اب حالت یہ ہے کہ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
اس معاملے پر پارلیمان میں بھی کئی بار بحث ہو چکی ہے اور اپوزیشن نے لنچنگ سے متعلق ہلاکتوں کا ڈیٹا فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔
متعدد آزاد رپورٹوں کے مطابق بھارت میں نریندر مودی کی پہلی حکومت کے بعد ہی ہجومی تشدد کی وارداتوں میں زبردست اضافہ شروع ہوا تھا۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے اس اضافے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے قصورواروں یا ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اور عدالتوں میں کم زور پیروی کی وجہ سے وہ عموماً بری ہو جاتے ہیں۔
کئی بار تو تھانوں میں پولیس ایسے معاملات کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی، جس سے جرم کی قانونی سزا کا تعین ہی محال ہو جاتا ہے۔
اس قسم کے ہجومی تشدد کا ایک انتہائی گھناؤنا اور غیر انسانی پہلو یہ بھی ہے کہ تشدد پر آمادہ ہجوم میں سے کچھ افراد ایسے تشدد کی مکمل ویڈیو بناتے ہیں اور پھر اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں پھیلایا جاتا ہے۔
کورونا وائرس کا مقابلہ گائے کے پیشاب سے کرنے کی کوشش
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
گائے کا پیشاب پینے کی تقریب
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
’طبی لحاظ سے فائدہ مند‘
بھارت میں کچھ ہندو گروپوں کا اصرار ہے کہ گائے کا پیشاب طبی لحاظ سے فائدہ مند ہے، اس لیے اسے پینے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اس تقریب میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
گائے بھی مقدس اور پیشاب بھی
تقریب میں شامل ایک خاتون گائے کا پیشاب پیتے ہوئے۔ ہندو مت میں گائے کو مقدس قرار دیا جاتا ہے اور یہی وجہ سے کہ کچھ قدامت پسند ہندوؤں میں اس طرح کے فرسودہ خیالات رائج ہیں۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
کوئی طبی شواہد نہیں
تقریب میں شامل ایک ہندو پیشاب پیتے ہوئے۔ تاہم طبی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ گائے یا اونٹ کا پیشاب کینسر یا کسی دوسری بیماری کا علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ عرب ممالک میں کچھ حلقے اونٹ کے پیشاب کو بھی طبی لحاظ سے شافی قرار دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
ایسی مزید پارٹیاں ہوں گی
گائے کا پیشاب پینے کی پارٹی 'آل انڈیا ہندو یونین‘ کے نئی دہلی میں واقع صدر دفتر میں منعقد کی گئی تھی۔ منتظمین نے کہا ہے کہ اسی طرح کی پارٹیاں دیگر بھارتی شہروں میں بھی منعقد کی جائیں گی۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’یہ پیشاب کورونا وائرس کو توڑ‘، مہاراج
’آل انڈیا ہندو یونین‘ کے سربراہ چکراپانی مہاراج نے اس تقریب کے دوران کورونا وائرس کے فرضی کیریکیچر (خاکے) کے ساتھ ایک تصاویر بھی بنوائی، جن میں وہ گائے کے پیشاب کا پیالہ تھامے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس پیشاب کو کورونا وائرس کا توڑ قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’انگریزی دوا کی ضرورت نہیں‘
اس پارٹی میں شریک ہونے والے اوم پرکاش نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''ہم گزشتہ اکیس برسوں سے گائے کا پیشاب پیتے آ رہے ہیں اور ہم گائے کے گوبر سے نہاتے بھی ہیں۔ ہمیں کبھی بھی انگریزی دوا لینے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کینسر کا علاج‘
طبی ماہرین کے علاوہ بھارت میں رہنے والے اکثریتی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ گائے کا پیشاب یا گوبر طبی لحاظ سے کسی بیماری کا علاج نہیں ہو سکتا۔ تاہم حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنما وکالت کرتے ہیں کہ گائے کا پیشاب ایک دوا ہے اور اس سے بالخصوص کینسر کا علاج ممکن ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کورونا وائرس کے خلاف اہم ہتھیار‘
ریاست آسام میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان نے حال ہی میں اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب اور گوبر سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عالمی وبا سے دنیا پریشان
کووڈ انیس کو عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے، جس کی وجہ سے کم ازکم پانچ ہزار افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ پینتالیس ہزار کے لگ بھگ متاثر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دسمبر چین سے پھوٹنے والی اس وبا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کی کوشش ہے کہ اس بیماری کے خلاف جلد از جلد کوئی دوا تیار کر لی جائے۔