بھارت میں اپنے ساتھ جینا بہت مشکل ہے، ارُون دَتی رائے
3 جنوری 2018بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے قدیمی حصے کی بھول بھلیوں جیسی گلیوں میں واقع ایک ریسٹورانٹ میں بیٹھی ہوئی ممتاز ناول نگار اور مضمون نویس ارُون دَتی رائے نے کہا کہ اگر وہ بھارت میں رہتے ہوئے، موجودہ حالات پر اپنی رائے نہیں دیتی ہیں تو پھر اُن کے لیے جینا بہت ہی مشکل ہو سکتا ہے۔
بھارت خود کو اپنی ہی نوآبادی بناتا جا رہا ہے، ارون دتی رائے
ارون دتی رائے پر شر انگیز بیان بازی کا الزام
’اب اسلام محبت اور امن کا مذہب کیسے کہلا سکتا ہے‘ رشدی
مودی کی خاموشی، عیارانہ تشدد کی ذمہ دار ہے: سلمان رشدی
اس تناظر میں خاتون ادیبہ نے مزید کہا کہ بھارت سمیت دنیا بھر میں ایک ایسا مالی و اقتصادی نظام ترتیب دیا جا چکا ہے اور اس نظام کے تحت انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ لکھتی اس لیے ہیں تا کہ وہ بتا سکیں کہ اس مالی نظام نے کمزور معاشرتی نظام کے حامل ملک بھارت کے اندر کس طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع کر رکھا ہے۔
اپنے فکشن لکھنے کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ کئی مرتبہ انہوں نے اپنے ساتھ عہد کیا کہ وہ اب نہیں لکھیں گی لیکن ایسی معاشرتی و معاشی ناہمواریاں دکھائی دیتی ہیں کہ وہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے ناول نگاری کو سہولت سے کام کرنے کا عمل قرار دیا جبکہ اُن کے لیے کسی مضمون کو لکھنا مسلسل بے آرامی و بے سکونی کا نام ہے۔
ارُون دَتی رائے ٹیلی وژن کے پروگراموں کے لیے اسکرپٹ لکھنے کے ساتھ ممبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ بھی رہی ہیں۔ اُن کو بین الاقوامی شناخت اُس وقت حاصل ہوئی جب اُن کا پہلا ناول ’دی گاڈ آف اسمال تھنگز‘ شائع ہوا۔ یہ ناول سن 1997 میں شائع ہوا تھا۔ اس کی ساٹھ لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اس ناول کا ترجمہ کئی زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔
بیس برسوں کے بعد ارُون دَتی رائے کا دوسرا ناول شائع ہوا ہے۔ اس ناول کا نام ’ دی منسٹری آف اَٹموسٹ ہیپی نَس‘ ہے۔ اُن کے نئے ناول کا انتساب ایسے لوگوں کے نام ہے جو بغیر ڈھارس اور دلاسے کے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بین الاقوامی ادبی حلقے ارُون دَتی رائے کو جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے بڑے ناول نگاروں سلمان رشدی اور وکرم سیٹھ کے ہم پلا قرار دیتے ہیں۔۔
وہ کیرالا سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُن کے والد شامی نژاد مسیحی اور والدہ بنگالی ہندو ہیں۔