گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس بھارت میں چائے کی پیداوار تیس فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ مارکیٹ میں چائے کے صارفین زیادہ ہیں اور یوں چائے کی قمیتوں میں بیس فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
اشتہار
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو قیمتوں میں حالیہ اضافہ پریشان حال بھارتی چائے کی صنعت کو سہارا دے سکتا ہے، جو گزشتہ ایک دہائی میں چائے کی قیمتوں میں نہ ہونے کے برابر اضافے اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت سے نبرد آزما ہے۔
لیکن چائے کی قیمتوں میں اضافہ کیوں رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں چائے کے کاشت کار اوربھارت کے ٹی بورڈ کے سابق چیئرمین پربھت بیزبوروہا کہتے ہیں، ''شدید موسمی حالات چائے کی پیداوار کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مئی میں بہت زیادہ گرمی اور اس کے بعد آسام میں آنے والے سیلاب نے پیداوار کو کم کر دیا ہے۔‘‘
بپربھت بیزبوروہا کے مطابق حکومت کی طرف سے 20 کیڑے مار ادویات پر پابندی کے فیصلے سے بھی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ مئی کے دوران بھارت میں چائے کی پیداوار گزشتہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں 30 فیصد سے بھی زیادہ کم ہو کر 90.92 ملین کلوگرام تک رہ گئی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے میں یہ اب تک کی کم ترین ماہانہ پیداوار ہے۔
شمال مشرقی ریاست آسام بھارت میں چائے کی نصف سے زیادہ پیداوار کی ذمہ دار ہے اور وہاں جولائی میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ شدید سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ کلکتہ ٹی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری کلیان سندرم کہتے ہیں کہ چائے کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت شروع ہوا، جب شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے اس کی پیداوار میں کمی آئی۔
ٹی بورڈ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون کے آخری ہفتے میں چائے کی اوسط قیمت 217.53 روپے فی کلو تک بڑھ گئی، جو کہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ ہے۔
جورہٹ کے ایک کسان کا کہنا تھا کہ جون کے دوران پیداوار میں بہتری آئی لیکن جولائی میں دوبارہ آنے والے سیلاب نے آسام کے کئی اضلاع میں چائے کی کٹائی کو محدود کر دیا، ''جولائی عام طور پر سب سے زیادہ پیداوار کا مہینہ ہوتا ہے لیکن اس سال ہم 15 سے 20 ملین کلو گرام کی کمی کا اندازہ لگا رہے ہیں۔‘‘
ٹی بورڈ کے سابق چیئرمین پربھت بیزبوروہا کہتے ہیں کہ سن 2023 میں بھارت نے 1.3 بلین کلوگرام چائے کی ریکارڈ پیداوار کی لیکن سن 2024 کے دوران پیداوار میں تقریباً 100 ملین کلوگرام کی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔
کولکتہ میں مقیم ایک تاجر نے کہا کہ پیداوار کی کمی سے قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ مالی طور پر کمزور اور مقروض کسان بڑے خریداروں سے کہہ رہے ہیں کہ ان کی چائے مہنگے داموں خریدی جائے۔
دوسری جانب وزارت تجارت نے کہا ہے کہ سن 2024 کے پہلے چار مہینوں میں بھارت کی چائے کی برآمدات گزشتہ سال کے مقابلے میں 37 فیصد بڑھ کر 92 ملین کلوگرام تک پہنچ گئیں۔ بھارت سی ٹی سی گریڈ (تیار شدہ اعلیٰ معیار) کی چائے بنیادی طور پر مصر اور برطانیہ کو برآمد کرتا ہے، جبکہ آرتھوڈوکس ورائٹی(بلیک، گرین اور وائٹ) عراق، ایران اور روس کو بھیجی جاتی ہے۔
ا ا / ع ت (روئٹرز)
دنیا میں سب سے زیادہ چائے کون لوگ پیتے ہیں؟
دنیا میں مشہور ہے کہ برطانوی اور ترک شہری بہت زیادہ چائے پیتے ہیں۔ لیکن اب سب سے زیادہ چائے پینے کا عالمی ریکاڑد ایک دوسرے علاقے کے رہائشیوں کے پاس چلا گیا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ چائے پینے والے ممالک میں جرمنی 84ویں نمبر پر ہے۔ جرمنی میں چائے کی سالانہ کھپت فی کس 28 لیٹر ہے لیکن جرمنی کے علاقے مشرقی فریزلینڈ (اوسٹ فرائیس لنڈ) میں دنیا میں سب سے زیادہ چائے پی جاتی ہے۔ ریکارڈ انسٹی ٹیوٹ فار جرمنی کے مطابق وہاں فی کس سالانہ کھپت 300 لیٹر بنتی ہے۔ یہ برطانیہ سے 100 لیٹر زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Lossie
مشرقی فریزلینڈ میں چائے کی ثقافت
جرمنی کے نارتھ سی کے ساحل پر واقع مشرقی فریزلینڈ میں شدید بارشوں کے باعث ہونے والی سردی سے بچنے کے لیے چائے پینے کی رسم کئی عشروں سے چلی آ رہی ہے۔ آسام پتوں والی تیز چائے چینی کے برتنوں میں سفید یا براؤن راک شوگر کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ ذائقے کے لیے دودھ کی بجائے کریم کا ایک چمچ ڈالا جاتا ہے اور اسے چائے میں مکس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
تصویر: Imago/Imagebroker
چائے اور وافلز
عمومی طور پر اتوار کو گپ شپ کے ساتھ ساتھ صرف کافی اور کیک ہی پیش نہیں کیا جاتا بلکہ چائے کے ساتھ وافلز بھی کھائے جاتے ہیں۔ چائے دنیا کا مشہور ترین مشروب ہے اور شاید اسی وجہ سے یہاں ہر مینیو میں کافی شامل نہیں ہوتی۔ اس جرمن علاقے میں اگر آپ چائے کے تین سے کم کپ پیتے ہیں تو میزبان برا بھی منا سکتا ہے۔
ہیمبرگ میں قائم جرمن ٹی ایسوسی ایشن سالانہ ایک تہوار کا انعقاد کرتی ہے، جہاں ایک پینل چائے کے ذائقے اور معیار کو جانچتے ہے۔ یہ چیک کیا جاتا ہے کہ چائے کے لیبل پر جو لکھا ہے، کیا وہ اس معیار پر پورا اترتی ہے؟ اگر آپ پینل کا حصہ نہیں ہیں تو آپ چیک کرنے کے لیے مفت آرڈر دے سکتے ہیں۔
چائے دنیا کا ایک مقبول ترین مشروب ہے اور کافی کی شہرت بھی اس سے کم ہے۔ اندازوں کے مطابق سن 2021ء میں 297 ارب لیٹر چائے پی جائے گی۔ جرمن شہری زیادہ تر بلیک اور گرین ٹی پینا پسند کرتے ہیں۔ تقریبا 60 فیصد جرمن بیگز کی بجائے کھلی چائے کو پسند کرتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
چائے اور دودھ
برطانیہ، پاکستان اور بھارت جیسے کئی ممالک میں چائے میں دودھ کے استعمال کا رجحان ہے جبکہ یہ خیال کئی جرمنوں کا موڈ آف کر دینے والا ہے۔ زیادہ تر جرمن بلیک یا گرین ٹی صرف چینی کی ایک ڈلی کے ساتھ پینا پسند کرتے ہیں۔
تصویر: Imago/UIG
ادرک، پودینے اور کالی مرچ والی چائے
جرمنی کے کیفیز میں ادرک، کالی مرچ یا پھرہربل والی چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔ لیکن جرمن ٹی ایسوسی ایشن انہیں ہاٹ ڈرنک تو سمجھتی ہے لیکن چائے تصور نہیں کرتی۔ چائے کی کیٹیگری میں شامل ہونے کے لیے بلیک یا پھر گرین ٹی کے پتے شامل ہونا ضروری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/O. Diez
جرمن مارکیٹیوں میں جڑی بوٹیاں اور چائے
جرمنی کی مارکیٹوں میں متعدد ذائقوں والی چائے دستیاب ہے۔ ان کے رنگ اور ذائقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مارکیٹنگ کے شعبے کو معلوم ہے کہ انہیں کیسے فروخت کرنا ہے۔ جسم کے حصوں کے نام پر ان کی برینڈنگ ہوتی ہے، جیسے معدے کے لیے، جگر کے لیے یا ہاضمے کے لیے چائے وغیرہ۔ یہاں تک کے سونے کے وقت کی چائے بھی دستیاب ہے۔