1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں بحری جہاز کی غرقابی، 37 لاشیں نکالی جا چکیں

صلاح الدین زین ڈی ڈـلیو، نئی دہلی
20 مئی 2021

حکام کے مطابق طوفان کی زد میں آنے والے بحری جہاز میں سوار درجنوں افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے جبکہ ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد کو بچا لیا گيا ہے۔

Weltspiegel 18.05.2021 Indien Zyklon Tauktae
تصویر: SUJIT JAISWAL/AFP via Getty Images

بھارت میں بحریہ کے حکام کا کہنا ہے ممبئی کے پاس ساحلی علاقوں میں طوفان کی زد میں آنے والا بحری جہاز جو دو روز قبل ڈوب گيا تھا اس میں 261 افراد سوار تھے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اس میں سے 181 افراد کو بچا لیا گيا ہے اور اب تک 37 لاشیں سمندر سے نکالی جا چکی تاہم حکام کے مطابق اب بھی 38 افراد لا پتہ ہیں۔

یہ تمام افراد تیل اور قدرتی گيس کی بھارت کی معروف کمپنی (اوا ین جی سی) سے کے لیے کام کرتے تھے۔ بھارتی بحریہ کے ایک ترجمان کے مطابق لا پتہ عملے کی تلاش کی مہم زور شور سے جاری ہے جس میں فضائیہ، ہیلی کاپٹر اور دیگر کشتیوں سے مدد لی جا رہی ہے۔

بعض ماہرین نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ لا پتہ افراد شاید زندگی کی جنگ ہار گئے ہوں۔ تاہم بھارتی بحریہ کے کمانڈر اجئے جھا  کا کہنا تھا کہ ان افراد کی تلاش کے لیے آئندہ تین روز تک مزید امدادی کارروائی جاری رکھی جائے گی۔

بحیرہ عرب سے اٹھنے والے طاقت ور سمندری طوفان تواتے نے منگل 18 مئی سے ہی بھارت کے ساحلوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس سے خطرات کے لیے پہلے ہی سے لوگوں کو خبردار کیا گيا تھا اور لاکھوں افراد کو محفوظ مقامات پر بھی پہنچایا گيا تھا۔

تصویر: NIHARIKA KULKARNI/REUTERS

تو سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے ماتحت اوا ین جی سی کے لیے کام کرنے والے ان ملازمین کو وہاں سے پہلے ہی کیوں نہیں نکالا  گيا اور اتنے لوگ طوفان میں پھنس کر کیسے ہلاک ہو گئے۔ واضح رہے کہ تیل اور قدرتی گيس پر تحقیق اور اسے نکالنے کے لیے کا یہ ادارہ کافی گہرے سمندر میں کام کرتا ہے۔ اس سے آگاہی رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ’یہ کمیونکیشن گیپ کی ایک صریح مثال ہے‘۔

ممبئی کے ایک سینیئر صحافی محمد شاہد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’بحریہ نے تو سب کو متنبہ کر دیا تھا۔ تمام ماہی گیروں اور ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کا بھی انخلا کروا لیا گيا تھا تاہم وزارت پیٹرولیم نے اس بارے میں اپنے ملازمین کو صحیح معلومات نہیں دی اور اسی لیے وہ اپنے جہاز میں رہنے پر مجبور تھے۔ اگر مرکزی وزارت نے بحریہ سے کہا ہوتا تو شاید وہ ان کی بھی مدد کرتے تاہم یہ کمیونکیشن گیپ مہلک ثابت ہوا۔‘‘

اس دوران کوسٹ گارڈز کی جانب سے ایک بیان میں کہا گيا ہے کہ اوا ین جی کو موسم سے متعلق دو ایڈوائزری بھیجی گئی تھیں اور اس میں اس بات کا اعادہ بھی کیا گيا تھا کہ ممبئی کے پاس سمندروں میں موجود تمام جہازوں کو فوری طور پر ساحل کی جانب واپس آنے کی ضرورت ہے۔ 

تصویر: Sujit Jaiswal/AFP

تفتیش کا حکم

اس دوران بھارتی وزارت پیٹرولیم اور گیس نے اس پورے معاملے کی تفتیش کا اعلان کیا ہے۔ وزارت کا کہنا ہے کہ اس کی ابتدا سے انتہا تک تمام پہلوؤں کی جانچ  کی جائے گی تاکہ یہ پتہ چل سکے آخر اس کے ملازمین کا جہاز طوفان کے دوران سمندر میں کیوں پھنسا رہا۔

مقامی میڈیا میں ڈوبنے والے جہاز کے چیف انجینیئر رحمان شیخ کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر جہاز کے کپتان نے طوفان سے متعلق تنیبہ کو سنجیدگی سے لیا ہوتا اور بہت سی لائف جیکٹ یا رافٹ پنکچر نہیں ہوتیں تو اس میں سوار سبھی افراد بچ سکتے تھے۔

اس دوران حزب اختلاف کی کئی سیاسی جماعتوں نے بھی اس کی عدالتی تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے قصور واروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ طوفان کی پیشگی اطلاع کے بعد سبھی سمندر سے باہر آ جائیں اور مرکزی حکومت کے ملازمین کے جہاز کو طوفان میں پھنسنے کے لیے وہیں چھوڑ دیا جائے۔

تصویر: Rafiq Maqbool/AP Photo/picture alliance

 طوفان سے تباہی

بحیرہ عرب سے اٹھنے والے سمندری طوفان تاوتے نے بھارت کی متعدد جنوبی اور مغربی ریاستوں میں تباہی مچائی ہے جس کی وجہ سے زبردست جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ گجرات، مہاراشٹر، کیرلا اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں اس طوفان سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

حکام کے مطابق تیز رفتار ہوائیں چلنے سے تقریباً 17 ہزار مکانات منہدم ہو گئے جبکہ 40 ہزار سے بھی زیادہ پیڑ جڑوں سے اکھڑ  گئے۔ اس طوفان کی آمد سے ایک دن قبل ہی تقریباً دو لاکھ افراد کو ساحلی علاقوں سے محفوظ مقام پر پہنچایا گيا تھا لیکن اس دوران اور بھی بہت سے لوگوں کو جان بچانے کے لیے اپنے گھروں سے دور جا کر پناہ لینا پڑی ہے۔

’فانی‘ بھارت کے مشرقی ساحلی علاقوں سے ٹکرا گیا

00:48

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں