1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں تقریباً ایک سال سے کوئی چینی سفیر نہیں

جاوید اختر، نئی دہلی
28 ستمبر 2023

تقریباً نصف صدی میں یہ اب تک کا سب سے طویل وقفہ ہے، جب چین کا کوئی سفیر بھارت میں موجود نہیں ہے۔ یہ لداخ میں فوجی تعطل کی وجہ سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان باہمی تعلقات میں انتہائی کشیدگی کا مظہر ہے۔

لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر تعطل کی وجہ سے سن بھارت اور چین کے درمیان تعلقا ت کم ترین سطح پر ہیں
لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر تعطل کی وجہ سے سن بھارت اور چین کے درمیان تعلقا ت کم ترین سطح پر ہیںتصویر: picture-alliance/A.Wong

اگلے ماہ نئی دہلی میں چینی سفارت خانے میں کسی سفیر کی عدم موجودگی کے ایک برس مکمل ہو جائیں گے۔ 1976 کے بعد سفیروں کی تعیناتی کا یہ طویل ترین وقفہ ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں موجودہ سردمہری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا ایک اور ثبوت گذشتہ دنوں ملا جب بھارت نے چین کے قومی دن کے موقع پر منعقد تقریب میں مہمان کے طور پر کسی وزیر کے بجائے درمیانے درجے کے ایک اہلکار کو بھیجا۔

اس معاملے سے واقف حکام کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ چین نے نئی دہلی میں اپنے سفارت خانے میں نئے سفیر کی تعیناتی کے لیے ابھی تک کسی معاہدے یا رسمی معاہدے کی درخواست نہیں کی ہے اور اس معاملے پر کسی طرح کی سرگرمی کے آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔

بھارت میں آخری چینی سفیر سن وائی ڈونگ نے گزشتہ سال 26 اکتوبر کو اپنی مدت مکمل کی تھی۔ بعد میں وہ چین کے تین نائب وزرائے خارجہ میں سے ایک کے طورپر مقرر کیے گئے۔

چین کا یہ دانستہ اور سوچا فیصلہ سمجھا ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے حالیہ مہینوں نے جاپان اور امریکہ کے لیے نئے سفیرو ں کا تقرر کیا لیکن بھارت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا کہ اس عہدے کو کب پر کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ اس ماہ کے اوائل میں نئی دہلی میں منعقدہ جی 20 سربراہی اجلاس میں شی جن پنگ نے خود شرکت کرنے کے بجائے وزیر اعظم لی کیانگ کو بھیجا تھا۔

ایک بھارتی ذرائع کا کہنا تھا، "یہ محض اتفاق نہیں بلکہ یہ ایک دانستہ فیصلہ ہے جو چین کے سوچے سمجھے انداز کا حصہ ہے۔ انہوں نے ماضی میں  کئی سفیروں کا تقرر کیا ہے اور بالخصوص ایسے وقت جب کہ سربراہ مملکت کا بھارت کا دورہ متوقع ہو۔"

گلوان تصادم کے بعد سے بھارت-چین تعلقات غیر معمولی ہیں، جے شنکر

انہوں نے مزید کہا کہ، "بھارت میں چینی سفیر کو تعینات نہیں کرنے کے حوالے سے دیگر قیاس بھی کیے جاسکتے ہیں لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت کی جانب سے صورت حال کو غیر معمولی اور کشیدہ قرار دینا بھی سفیر کو تعینات نہ کرنے کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔"

نئی دہلی میں منعقدہ جی 20 سربراہی اجلاس میں شی جن پنگ نے خود شرکت کرنے کے بجائے وزیر اعظم لی کیانگ کو بھیجا تھاتصویر: Kenzaburo Fukuhara/AP Photo/picture alliance

چین کے قومی دن کی تقریب میں بھارتی وزیر کی عدم شرکت

بھارت اور چین کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا ایک اور ثبو ت پیر کے روز نئی دہلی میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب چین کے قومی دن کی تقریب میں بھارتی حکومت کا کوئی وزیر شریک نہیں ہوا۔

پروٹوکول کے مطابق حکومت نئی دہلی میں واقع سفارت خانوں اور ہائی کمیشنوں کے ذریعہ منعقد کیے جانے والے قومی دن کے موقع پر بالعموم کابینہ درجہ کے کسی وزیر یا وزیر مملکت کے عہدے پر فائز کسی شخص کو بھیجتی ہے۔

پیر کے روز جب چین کے قومی دن کی تقریبات منعقد کی گئی تھیں اسی دن سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب بھی منعقد ہوئی تھی جس میں کابینی وزیر سمرتی ایرانی نے شرکت کی تھی۔ لیکن چینی سفارت خانے کی تقریب میں وزارت خارجہ میں مشرقی ایشیا کے جوائنٹ سکریٹری گورنگ لال داس شریک ہوئے۔

بھارت چین تعلقات کشیدہ دور سے گزر رہے ہیں، جے شنکر

دلچسپ بات یہ ہے کہ گورنگ لال داس نے حال ہی میں تائیوان میں بھارتی نمائندے کے طورپر خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ماہ چین، جاپان اور کوریا کے شعبے کے جوائنٹ سکریٹری کے طورپر اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔

نئی دہلی میں آخری چینی سفیر اور نائب وزیر خارجہ سن وائی ڈونگ اپنے جاپانی ہم منصب کے ساتھ ٹوکیو میں ایک اجلاس کے دورانتصویر: Yomiuri Shimbun/AP Photo/picture alliance

بھارت میں چینی سفیر کے عہدے کی اہمیت

 جاپان، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ بھارت میں بھی چینی سفیر کے عہدہ کو کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ چینی سفارت کاروں کے لیے تعیناتی کی سب سے زیادہ پسندیدہ پوسٹنگ میں سے ایک ہے کیونکہ یہاں تعینات کیے جانے والے سفیر کو نائب وزیر خارجہ کے عہدے کے مساوی سمجھا جاتا ہے۔

نئی دہلی میں آخری چینی سفیر سن وائی ڈونگ اور ان کے پیش رو لیو ژاوہوئی دونوں کو ہی چین میں نائب وزیر خارجہ بنایا گیا۔

چین کا 'معیاری نقشہ' اور اس کے خلاف بھارت کا شدید احتجاج

گزشتہ برس اکتوبر میں وائی ڈونگ کے جانے کے بعد سے چینی سفارت خانہ ناظم الامور ما جیا کی سربراہی میں کام کررہا ہے۔ 1976کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اتنے طویل عرصے تک نئی دہلی میں کوئی چینی سفیر نہیں ہے۔

چین میں بھارت کے سابق سفیر اشوک کانتھا کا کہنا ہے کہ "یہ چین کی طرف سے پیغام ہے کہ وہ تعلقات کی موجودہ حالت سے مطمئن نہیں ہے۔"

خیال رہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر تعطل کی وجہ سے سن 1962  میں بھارت او رچین کے درمیان جنگ کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات کم ترین سطح پر ہیں۔ اس وقت لداخ سیکٹر میں دونوں ملکوں نے تقریباً 60000  فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں