'بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر امریکا خاموش کیوں ہے؟'
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
3 اپریل 2021
کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی نے ملک کے جمہوری اداروں پر قبضہ کر لیا ہے اور اس سے اپوزیشن کے لیے مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔
اشتہار
بھارت میں حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما نے دو اپریل جمعے کے روز کہا کہ بھارت میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس پر آخر امریکا نے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔
راہول گاندھی نے دنیا میں ’جمہوریت کے وژن‘ پر ایک آن لائن مباحثے کے دوران یہ بات کہی جس میں امریکا کے سابق سفیر نکولس برن بھی شامل تھے۔ نکولس برن نے جب روس اور چین کی جانب سے پیش کیے جانے والے سخت نظریات کے مقابلے میں جمہوری اقدار پر بات شروع کی تو راہول گاندھی نے کہا کہ آخر امریکا بھارت کے بارے میں خاموش کیوں ہے؟
ان کا کہنا تھا، ’’بھارت میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے میں اس پر ہمیں امریکی حکومت کی جانب سے کچھ بھی سننے کو نہیں ملتا۔ اگر آپ جمہوریتوں کے درمیان شراکت داری کی بات کہہ رہے ہیں، تو پھر یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں بنیادی طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ امریکا ایک عمیق نظریہ ہے، جس طرح سے نظریہ آزادی آپ کے آئین میں شامل ہے۔ لیکن آپ کو اس نظریے کو دفاع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہی سب سے اہم سوال ہے۔‘‘
بات چيت کے دوران راہول گاندھی نے ایک بار پھر یہ بات دہرائی کی کہ حکمراں جماعت نے بھارت کے تقریباً تمام جمہوری اداروں پر قبضہ کر کے اس طرح تبدیل کر دیا ہے کہ 2014 ء کے بعد سے اپوزیشن کے لیے کام کرنا مشکل ہوگيا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جن اداروں کا کام منصفانہ سیاسی لڑائی کی حمایت کرنا ہوتا ہے وہ اب ایسا نہیں کرتے ہیں۔‘
دہلی کے فسادات میں بچ جانے والے افراد اب بھی خوف زدہ
بھارتی دارالحکومت میں رواں برس فروری میں پُرتشدد ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔ اِن فسادات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔
تصویر: DW/S. Ghosh
عارضی سکون
نئی دہلی کے ایک مقام عیدگاہ میں انتظامیہ نے ایک بڑا عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ اِسی کیمپ میں کھلے آسمان تلے ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ ایسا اِمکان ہے کہ بے گھر ہونے والے افراد رواں برس عید الفطر کی نماز بھی یہیں ادا کریں گے۔ اِس کیمپ میں قریب ایک ہزار لوگ عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
زخم ابھی تازہ ہیں
ایسا نہیں لگتا کہ فسادات میں جانی و مالی نقصان برداشت کرنے والے افراد اپنے غم کو بھول پائیں گے۔ کیمپوں میں رہنے والے اِنسانوں کو خوف کی صورتِ حال اور اپنے دُکھ درد سے نجات بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دہلی پولیس کے مطابق فسادات میں ترپن افراد ہلاک ہِوئے تھے، جن میں بیشتر مسلمان تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
خواتین کی سلامتی کا معاملہ
عید گاہ کا کیمپ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصے میں مرد اور دوسرے حصے میں خواتین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اِس تقسیم کی وجہ خواتین کا تحفظ ہے۔ کیمپ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ فسادات کے صدمے سے شاید ہی نہیں نکل سکیں گے۔
تصویر: DW/S. Ghosh
بچے مختلف مستقبل کو دیکھتے ہوئے
فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بچے شدید خوف کی حالت میں ہیں۔ اِن فسادات کے دوران کئی اسکولوں کو بھی آگ لگائی گئی تھی۔ کیمپ میں بعض بچے اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اُن کے ذہن خوف کی لپیٹ میں ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
اِمدادی عمل جاری
کیمپ میں مقیم افراد کو انتظامی اِداروں اور غیر حکومتی تنظیموں کی جانب سے قانونی اور مختلف معاملات بشمول صحت کی اِمداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کیمپ کے مکینوں کی عمومی صحت چیک اپ کرنے کے علاوہ اُنہیں ادویات بھی فراہم کرنے کا سِلسِلہ جاری رکھے ہُوئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
اُمید ابھی زندہ ہے
تمام تر جسمانی تکالیف اور ذہنی صدمات کے باوجود کیمپ کے رہائشی یہ امید رکھتے ہیں کہ اچھ دن لوٹیں گے۔ وہ پھر سے اپنے پرانے علاقوں میں واپس جا کر دوست احباب کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں گے۔
تصویر: DW/S. Ghosh
6 تصاویر1 | 6
ان کا مزید کہنا تھا، ’’انتخابات لڑنے کے لیے، مجھے ادارہ جاتی ڈھانچے کی ضرورت ہے، مجھے ایسے عدالتی نظام کی ضرورت ہے جو میری حفاظت کر سکے، مجھے ایسے میڈیا کی ضرورت ہے جو آزاد ہو، مجھے مالی برابری کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کا جو سلوک ہے اس سے سماج کا ایک بڑا طبقہ بہت مایوس ہے اور ایسے تمام لوگوں کو ایک ساتھ لانے کی ضرورت ہے۔
راہول گاندھی سے جب یہ سوال کیا گيا کہ اگر وہ وزير اعظم بن گئے تو ان کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ان کا ترقی کی پالیسی پر بہت زیادہ زور دینے کے بجائے روزگار مہیا کرنے پر توجہ مرکوز کرنے پر ہوگی۔
ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں ترقی کی ضرورت ہے لیکن ہم پیداوار بڑھانے اور روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اقدار پر توجہ مرکوز کریں گے۔‘‘
بھارت ہندو راشٹر بننے کی راہ پر ہے، اسدالدین اویسی
02:43
گزشتہ ماہ بھی راہول گاندھی نے جمہوری اقدار کے نگراں سویڈن کے ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا، 'بھارت اب جمہوری ملک نہیں رہا۔‘ اس سے سوشل میڈیا پر زبردست بحث چھڑ گئی تھی۔ اس سے ایک ہفتے قبل بھی انہوں نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت پر یہ کہہ کر سخت نکتہ چینی کی تھی کہ وہ بھارتی جمہوریت کا گھلا گھونٹنے کا کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی کے دور اقتدار میں تمام حکومتی اداروں کو سخت گیر ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریات سے آلودہ کیا جا رہا ہے اور اس سے بڑے حکومتی اداروں کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب حال یہ ہے کہ سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس اپنے نظریات کے حامی لوگوں کو ملک کے تمام اداروں ميں بھرتی کرا رہی ہے۔ '' تو اگر ہم انتخابات میں بی جے پی کو شکست بھی دے دیں تو بھی ہم اداروں میں موجود ایسے افراد سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔‘‘
بھارت میں مودی کی جیت کا جشن
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیر حتمی نتائج کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سن دو ہزار چودہ سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے جیت سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ 542 سیٹوں میں سے 283 پارلیمانی سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
اپوزیشن کی کانگریس جماعت کو صرف 51 سیٹوں پر سبقت حاصل ہے۔ یہ غیر حتمی اور ابتدائی نتائج ہیں لیکن اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو نریندر مودی کی جماعت واضح برتری سے جیت جائے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
بی جے پی کو اکثریتی حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جماعت بغیر کسی دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کے حکومت سازی کرے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
ابتدائی غیرحتمی نتائج کے مطابق بی جے پی کی اتحادی سیاسی جماعتیں بھی تقریبا 50 سیٹیں حاصل کر سکتی ہیں اور اس طرح نریندر مودی کی جماعت کے ہاتھ میں تقریبا 330 سیٹیں آ جائیں گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
اعداد وشمار کے مطابق دنیا کے ان مہنگے ترین انتخابات میں ریکارڈ چھ سو ملین ووٹ ڈالے گئے جبکہ ماہرین کے مطابق ان انتخابات کے انعقاد پر سات بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
بھارت میں ان تمام تر ووٹوں کی گنتی آج تئیس مئی کو مکمل کر لی جائے گی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیرحتمی نتائج انتہائی ناقابل اعتبار بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ سن 2004ء کے ابتدائی خیر حتمی نتائج میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن حتمی نتائج سامنے آنے پر کانگریس جیت گئی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
دریں اثناء اپوزیشن کانگریس کے ایک علاقائی لیڈر نے ان انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کا انڈیا ٹوڈے نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم جنگ ہار گئے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Dave
دوسری جانب کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی نے بدھ کے روز ان ابتدائی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ اڑتالیس سالہ گاندھی کا اپنے حامیوں سے ٹویٹر پر کہنا تھا، ’’جعلی ابتدائی نتائج کے پروپیگنڈا سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ابتدائی نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ راہول گاندھی کو ریاست اترپردیش میں امیٹھی کی آبائی حلقے میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی نسلوں سے گاندھی خاندان اس حلقے سے منتخب ہوتا آیا ہے۔