بھارتی طبی ماہرین اس وقت حیران رہ گئے جب ایک انیس سالہ بھارتی ماں کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے پیٹ میں پیدائش کے وقت ہی ایک اور بچہ تھا۔
اشتہار
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق پیدائشی طور پر حاملہ بچہ گزشتہ ماہ بیس جولائی کے روز بھارتی شہر ممبئی کے نواحی علاقے میں بلال ہسپتال میں پیدا ہوا۔
اس ہسپتال میں کام کرنے والی ریڈیالوجسٹ بھونا تھوراٹ نے ڈی پی اے کو بتایا کہ جولائی کے اوائل میں معمول کے چیک اپ کے دوران رحم مادر میں موجود اس بچے کی بیضہ دانی میں ہڈیوں سمیت کسی مواد کی نشاندہی ہوئی تھی۔
بریسلٹ بھارت کے نومولود بچوں کی زندگیاں بچانے کا سبب
02:45
تھوراٹ کے مطابق، ’’پیدائش کے بعد کیے گئے اسکین میں پتا چلا کہ اس بچے کے پیٹ میں بھی ایک اور بچہ تھا جس کا دماغ، بازو اور ٹانگیں بھی بن چکی تھیں۔‘‘
لیکن یہ ہوا کیسے؟ اس امر کی ایک ممکنہ وضاحت پیش کرتے ہوئے تھوراٹ نے ڈی پی اے کو ٹیلی فون پر دیے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا، ’’اس ماں کو جڑواں بچوں کا حمل ٹھہرا تھا، لیکن ایک اور بچہ مکمل ہونے والے بچے کے جسم کے اندر پروان چڑھنے لگا۔ انیس برس کی حاملہ عورت کے رحم میں موجود بچے کے اندر ایک اور بچہ تیرہ ہفتوں تک پرورش پاتا رہا۔‘‘
تھوراٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کے دوران ایک بچے (فیٹس یانامکمل بچہ) کے پیٹ میں دوسرے بچے کی موجودگی طبی تاریخ کا ایک انتہائی نادر واقعہ ہے۔
ممبئی کے قریب بلال ہسپتال میں اس بچے کی پیدائش بیس جولائی کے روز ہوئی جس کے ایک ہفتہ بعد ممبئی ہی کے ایک اور ہسپتال میں اس بچے کے پیٹ میں موجود دوسرے نامکمل بچے کو نکالنے کے لیے آپریشن کیا گیا۔
ڈی پی اے کے مطابق بچے کی سرجری پچیس جولائی کے روز کی گئی اور اس کے پیٹ کے اندر سے سات سینٹی میٹر طویل اور ڈیڑھ سو گرام وزن کا نامکمل بچہ مردہ حالت میں نکال لیا گیا۔
گائناکالوجسٹ نینا نچلانی نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’آپریشن میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ زچہ اور بچہ دونوں خیریت سے ہیں تاہم ان کی صحت بہتر ہونے تک دونوں کو ہسپتال میں داخل رکھا جائے گا۔‘‘
نچیلانی اور تھوراٹ دونوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اب تک ایسے صرف چند سو کیس ہی سامنے آئے ہیں۔ کسی فیٹس یا نامکمل بچے کے اندر ایک اور نامکمل فیٹس کی تشکیل حمل ٹھہرنے کے پانچ لاکھ واقعات میں سے ایک ہی بار سامنے آتے ہیں۔
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔